فسانہء مبتلا/05

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

چوتھا باب: مبتلا کا بیاہ

یہ تب کی بات ہے کہ مبتلا کو مدرسے میں داخل ہوئے چوتھا برس شروع تھا۔ خوشحال باپ کا بیٹا صورت شکل کا اچھا بلکہ حد سے زیادہ اچھا، پڑھا لکھا کماؤ۔ دس روپے کا مدرسے میں وظیفہ دار اس روداد کے لڑکے کو بیٹیوں کی کیا کمی تھی۔ قاعدے کے مطابق مبتلا کی طرف سے بیٹی والوں کے یہاں ابتداءً رقعہ جانا چاہیے تھا۔

مگر مبتلا کی ظاہری حالات دیکھ کر سن کر لوگ اس قدر ریجے ہوئے تھے کہ کئی جگہ سے بیٹی والوں نے منہ پھوڑ کر رقعہ منگوا بھیجا۔ دستور کی بات ہے کہ خریداروں کی کثرت ہوتی ہے تو بیچنے والوں کے مغز چل جاتے ہیں۔ مبتلا کی ماں بہنوں کا یہ حال تھا کہ کہیں کی بات ان کے خاطر تلے آتی ہی نہ تھی ورنہ کیا مبتلا جیسا اللہ آمین کا بیٹا سترہ اٹھارہ برس کی عمر تک کنوارا بیٹھتا۔

اب تک تو اس کے ایک چھوڑ کبھی کے چار چار بیاہ ہو گئے ہوتے۔ اس گھر کی خوشحالی اتنی ہی تھی کہ قلعے کی تنخواہیں، اسامیاں مکانات کا کرایہ ملا کر کل سو سوا سو روپے کی آمدنی تھی اور اس میں اتنا بڑا کنبہ مگر وہ تو مبتلا کا باپ ایسا منظم اور کفایت شعار آدمی تھا کہ اس نے اپنے سلیقے سے گھر کا بھرم بنا رکھا تھا۔ اس حالات پر جہاں کہیں سے پیام آیا چھوٹتے کے ساتھ ایک دم سے چاندی کا بھی نہیں سونے کے پلنگ کی فرمائش ایسے اصرار کے ساتھ ہوتی تھی گویا کہ نکاح کی شرط اعظم ہے اور پھر معاملے کی بات ہے جیسا لینا ویسا دینا، ہیکڑی تو یہ تھی کہ لیں تو سنہرا پلنگ اور دینے کے نام پٹاری کے خرچ کے لیے آدھی نہیں کیونکہ ہمارے خاندان کا دستور نہیں، مہر شرع محمدی، سو روپے کا چڑھاوا، سو روپے کا جھومر، صورت شکل اپنی اپنی جگہ سبھی تلاش کرتے ہیں اور سمجھنے اور غور کرنے والے کو تو یہ بات ہے کہ باوجود یہ کہ ہر شخص خوبصورتی کا خواہاں ہے مگر بُری بھلی کالی گوری یہاں تک کہ کانٹری، کھدری اللہ کی بندیاں سبھی کھپی چلی جاتی ہیں۔

ہم نے تو اتنی عمر ہونے آئی کسی کو صورت کی وجہ سے کنواری بیٹھے نہ دیکھا۔ تاہم چونکہ مبتلا ایک خوبصورت خاندان کا آدمی اور خود بھی بڑا خوبصورت تھا۔ اگر اس کے لیے خوبصورت بی بی تلاش کی جاتی تھی تو کچھ بے جا بات نہ تھی۔ مگر تلاش کرنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں کہ عورتیں چوری چھپے حیلے بہانے کسی نہ کسی طرح لڑکی کو یا تو خود کسی وقت دیکھ آتی ہیں یا اپنے دیکھنے کا موقع نہیں بنتا تو کسی کو بھیج کر دکھلوا لیا کرتی ہیں۔

یہاں تو یہ ضد کہ ہم تو اپنی آنکھ سے دیکھ بھال کریں گے اور اپنے ہاتھوں سے لڑکی کے منہ میں مصری کی ڈلی دیں گے۔ کیسی کیسی جگہ سے پیام آئے۔ کہاں کہاں رقعہ گیا مگر کہیں لین دین پر تکرار ہوئی۔ کہیں صورت پسند نہ آئی کہیں دیکھنے بھالنے کی شرط نامنظور ہوئی۔ غرض کوئی بات ٹھہری نہیں پچاسوں پیام مسترد اور بیسویں جگہ سے رقعہ واپس۔ رشتہ ناطے کی بات چیت ہو کر چھٹم چھٹا ہو جاتا یا رقعہ واپس آنا کچھ آسان نہیں ہے۔

بیٹی والے اس میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور ان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ایک جگہ کا رقعہ واپس جائے گا تو دوسروں کو خدا جانے کیا کیا خیالات پیدا ہوں گے اکثر ایسے موقعوں پر دلوں میں رنجش آجاتی ہے۔ خیر ایک دو جگہ بہ مجبوری ایسا اتفاق ہو تو مضائقہ نہیں نہ کہ مبتلا کا رقعہ آج بھیجا اور بلا کر دس دن بعد الٹا منگوا لیا جب متواتر واپسی رقعے کی نوبت پہنچی تو سارے شہر میں ایک غل سا پڑ گیا اور جہاں جہاں سے رقعہ واپس منگوایا گیا۔

ان کے ساتھ بیٹھے بٹھائے ایک طرح کی عداوت قائم ہوئی۔

یہاں تک نوبت پہنچی کہ جس مشاطہ سے کہتے کانوں پر ہاتھ دھرتی جہاں رقعہ بھیجتے وہ لوگ لانے والے کے اندر آنے تک کے روادار نہ ہوتے۔ پس اس خاندان کے ناز بے جانے مبتلا کو ایسا نکو بنا دیا کہ اب کوئی اس کی بات کی ہامی نہیں بھرتا تھا۔ رقعے کا بے رد و کد واپس آنا تو ممکن نہیں۔ ایک گھر کا تو ہم کو حال معلوم ہے کہ وہاں پہلے مشاطہ کی معرفت زبانی بات چیت ہوئی وہ لوگ ان کے کنبے دار بلکہ کچھ دور کے رشتے دار بھی تھے۔

مہینوں سوال جواب ہوتے رہے۔ اکثر باتیں طے ہو کر بعض کی نسبت کچھ تکرار درپیش تھی کہ یکا یک ان کی طرف سے رقعہ جا موجود ہو، بیٹی والے خوش ہوئے کہ گفت و شنید کے بعد جو رقعہ آیا تو بس اس کے یہی معنی ہیں کہ منظور کر لیا۔ چنانچہ یہی سمجھ کر رقعہ تو رکھ لیا اور جواب میں زبانی اتنا ہی کہلا بھیجا کہ ہم کو بسروچشم منظور ہے۔ خدا انجام اچھا کرے۔

انشاء اللہ دو چار دن میں صلاح کر کے کوئی اچھی سی تاریخ ٹھہرا کر کہلا بھیجیں گے۔ سمدھنیں آکر لڑکی کا منہ میٹھا کر جائیں۔ پھر اللہ خیر کرے۔ جب ان کی مرضی ہو گی بیاہ برات ہو رہے گا۔ ہم تو اس وقت چاہیں تو اس وقت تیار ہیں۔ ہمارے یہاں ذرا دیر نہیں جو عورت یہ پیام لے کر گئی تھی مبتلا والوں نے اسی ہاتھ کہلا بھیجا کہ پہلے ہماری شرطوں کے مطابق تحریری اقرار نامہ بھیج دیں۔

تب تاریخ ٹھہرائی جائے۔ تاریخ کا ٹھہرانا ایسا کیا آسان ہے۔ یہ سن کر سب کو سخت تعجب ہوا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ آخر مبتلا والوں کی طرف سے واپسی رقعے کا تقاضا ہوا۔ دن میں دوبار رقعے کے لیے آدمی جاتا اور ایسی سخت سخت باتیں کہتا کہ گویا رقعہ کیا ہے، مہاجن کا قرضہ ہے۔ خیر ہار کر رقعہ واپس تو کیا مگر اس طرح کہ مارے غصے کے نکال کر موہری پر پھینک دیا کہ کم خواب کی تھیلی جس میں رقعہ دستور کے مطابق لپیٹ کر آیا تھا۔

تمام کیچڑ میں لت پت ہو گئی اور کہا کہ جاؤ اس کو شہد لگا کر چاٹو اور دیکھو خبردار لڑکے کی ماں سے ضرور ضرور کہہ دینا کہ تم نے کنبے داری میں دو مہینے بات لگی رکھ کر آپ ہی رقعہ بھیجا اور پھر آپ ہی اَن ہونی باتوں پر اصرار کر کے واپس منگوایا۔ یہ کچھ بھلمنساہت کی بات نہیں ہے۔ ہم نے مانا کہ ان کا بیٹا ان کے لیے چوہے کو ہلدی کی گرہ اللہ آمین کا ہے۔

مگر دوسروں نے بیٹیاں کوڑے پر پڑی نہیں پائیں ایسی شرطوں سے جو نہ سنیں نہ دیکھیں، ان کو شہر میں تو انشاء اللہ بیٹی ملنے کی نہیں۔ سونے کا پلنگ ان کو مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی اس سے پہلے تین بیٹیاں بیاہ چکے ہیں اور ابھی اللہ رکھے آگے دو اور موجود ہیں۔ بیٹیوں کو تو ڈھنگ کے نواری پلنگ بھی نہ جڑے۔ بیٹے میں ایسا کیا سرخاب کا پر لگا ہے کہ بغیر سونے کے پلنگ کے اس کو نیند نہیں آتی۔ سارا شہر تھڑی تھڑی کر رہا ہے۔ خدا نہ کرے جو بھلا مانس اس کو بیٹی دے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دیکھیں ناک رہی یا کٹ گئی۔