فسانہء مبتلا/04

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

تیسرا باب: مدرسے کی تعلیم اور بُری صحبت

مبتلا کے باپ کی تو پہلے ہی سے یہ رائے تھی کہ اس کو شروع سے مدرسے میں بٹھایا جائے مگر عورتوں کو مبتلا کی اتنی مفارقت بھی گوارا نہ ہوئی۔ ناچار پورے چھ برس میاں جی کو نوکر رکھ کر اس کو گھر ہی پر تعلیم کرایا۔ اب میاں جی کا بھی سرمایہ معلومات ہو چکنے پر آیا اور فارسی کی درسی متداول کتابیں سب مبتلا کی نظر سے نکل گئیں۔

اور بات صاف تو یہ ہے کہ مبتلا کے سر میں اب اور ہوا بھری ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں ڈھونڈتی تھیں یاروں کے جلسے، دوستوں کی صحبتیں اور وہ گھر پر میسر نہ تھیں۔ باپ نے کچھ اور سوچا مبتلا نے کچھ اور۔ غرض سب کی صلاح سے مبتلا مدرسے میں داخل ہوا۔ مبتلا نے چھ برس مکتب میں تعلیم پائی مگر مکتب کیا تھا برائے نام اس کا جی بہلنے کے لیے چار پانچ ریزگی لڑکے اور بٹھا لیے گئے تھے، یعنی ایک حساب سے چودہ برس کی عمر تک مبتلا بھونرے میں پلا اور دنیا کی کسی قسم کی ہوا اس کو نہ لگنے پائی۔


اب جو مدرسے کی عربی جماعت میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا لڑکوں کا جنگل کہ سات سات آٹھ آٹھ برس کی عمر سے لے کر بیس پچیس برس تک کے اچھے خاصے جوان ہر ذات کے ہر پیشے کے چار ساڑھے چار سو لڑکے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اگرچہ انگریزی، عربی، فارسی، سنسکرت، ریاضی کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر جماعت کا کمرہ الگ مگر اوقات درس کے علاوہ سب ایک دوسرے سے بلاامتیاز آزادانہ ملتے بات چیت کرتے اور کھیلتے ہیں۔

مبتلا کو یہ حال دیکھ کر بلامبالغہ ایسی خوشی ہوئی جیسے کسی جانور کو قفس سے آزاد کر کے باغ میں چھوڑ دیا جائے۔ اب تک وہ یہی جانتا تھا کہ میاں جی ہوئے، مولوی ہوئے، بڈھے ہی ہوتے ہوں گے۔ کیونکہ اس نے اپنے میاں جی کو دیکھا تھا پلکیں تک سفید یہاں مدرسے میں آکر دیکھا مدرس اکثر جوان کہ اب سے چار چار پانچ پانچ برس پہلے خود طالب علم تھے۔

امتحان دیا، پاس ہوئے، زمرئہ مدرسین میں داخل کر لیے گئے۔ اس کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ بعض مدرس اپنی جماعت کے بعض بعض طالب علموں سے بھی کم سن ہیں۔ جس جماعت میں مبتلا داخل ہوا چونکہ عربی کی سب سے چھوٹی جماعت تھی۔ اس میں طالب علموں کی بڑی کثرت تھی۔ رجسٹر میں سو ستر لڑکوں کا نام تھا مگر پچاس پچپن ہمیشہ حاضر رہتے تھے۔ ان میں سے ایک تہائی کے قریب مبتلا سے بھی بہت بڑی عمر کے تھے۔

اس جماعت کو جو مولوی صاحب پڑھاتے تھے جیسے ان کی جماعت سب جماعتوں میں چھوٹی تھی ویسے ہی تمام مدرسوں میں خود بھی سب سے چھوٹے تھے۔ عمر میں، قدوقامت میں، وقعت وجاہت میں، یعنی قسمت سے مدرس بھی ملے تو یار۔ استاد لونڈا تھا، نکیلا اور طرح دار مدرسے کے احاطے میں پاؤں کا دھرنا تھا کہ یاروں نے مبتلا کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بعضے تو ٹکٹی باندھ باندھ کر ایسی بُری طرح گھورتے تھے کہ گویا آنکھوں کے رستے کھائے جاتے ہیں۔

پہلے ہی سے لڑکوں میں بہت سی ٹولیاں تھیں۔ اب ایک بڑی بھاری اور نئی ٹولی مبتلا کی قائم ہوئی ایک جماعت بندی تو سرکاری تھی کہ جس قدر لڑکے ہم سبق ہوتے سب کے سب وقت واحد میں ایک استاد سے پڑھتے۔ مگر ایک جماعت بندی لڑکوں نے آپس میں ٹھہرا رکھی تھی جس کو ہم نے ٹولی سے تعبیر کیا۔ جس طرح سرکاری جماعت بندی کے اوقات مقرر تھے کہ مثلاً جب ریاضی کا گھنٹہ آیا، عربی اور فارسی اور سنسکرت کی جماعتوں سے جو جو ریاضی کا پڑھنے والا تھا، ماسٹر صاحب کی خدمت میں آحاضر ہوا۔

اسی طرح ٹولیوں کے اجتماع کے بھی خاص خاص اوقات تھے۔ مدرسے کے وقت سے ذرا پہلے لڑکے سویرے مدرسے میں آپہنچتے یا جب ایک بجے نماز کے لیے ایک گھنٹہ کی چھٹی ہوتی یا مدرسہ برخاست ہونے کے بعد ان تین وقتوں میں جو لڑکا جس ٹولی کا تھا اس میں آملتا اور بعض پھٹیل بھی پڑے پھرتے تھے، جو کسی ٹولی میں نہ تھے۔ یہ ٹولیاں ایک مجمع ناجائز تھیں اور ان کی اغراضِ مشترکہ تمام تر بے ہودہ۔

مدرسے کے سارے انتظام اچھے تھے۔ چیزیں وہ پڑھاتے تھے جو دنیا میں بکار آمد ہوں شوق کے مشتعل کرنے کو امتحان کا قاعدہ نہایت عمدہ تھا۔ فرداً فرداً ایک ایک لڑکے کو الگ الگ سبق پڑھانے سے جماعت جماعت کو پڑھانے کا نہایت مفید طریقہ تھا اس سے لڑکوں میں ایک طرح کی مناقشت پیدا ہوتی تھی کہ ایک پر ایک سبقت لے جانی چاہتا تھا۔ دوسرے ہم سبق ہونے سے ایک ایک کی مدد کر سکتا تھا، تیسرے لڑکوں کی لیاقت کا موازنہ اور مقابلہ بخوبی ہو سکتا تھا۔

لڑکوں کو حاضر باشی کا پابند کرنے کے لیے ترتیب، نشست کا ردوبدل بھی بہت موثر تھا۔ پڑھائی اس قدر تھی کہ لڑکوں کو تمام وقت مشغول رکھنے کے لیے بخوبی کافی تھی۔ نوبت بہ نوبت مختلف مضامین کے پڑھانے سے طبیعت ملول اور کند نہیں ہونے پاتی تھی۔ غرض سبھی انتظام بھلے تھے، مگر افسوس لڑکوں کے چال چلن اور اخلاق کی طرف کسی کو مطلق توجہ نہ تھی۔ ہر مدرس اس فکر میں رہتا کہ جس چیز کا پڑھانا اس سے متعلق ہے۔

اس چیز کے امتحان میں لڑکے بُرے نہ رہیں جب تک کوئی لڑکا اس شرط کو پورا کیے جاتا ہے۔ اگرچہ چوری چھپے ناجائز طور پر دوسرے سے مدد لے کر ہی کیوں نہ ہو کسی کو اس کے کردار سے بحث نہیں، چوری کرو، جھوٹ بولو، سربازار جوتی پیزار لڑلو، گالیاں دو اور گالیاں کھاؤ، شرافت کو بٹالگاؤ، بدمعاشوں میں رہو اور بدمعاش بنو، پتنگ لڑاؤ، اکھاڑے میں جا کر ڈنٹر پیلو، مگدرہلاؤ، گاؤبجاؤ غرض جو تمہارا جی چاہے سو کرو مگر جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں امتحان اچھا دو تو سکالر شپ بھی ہے، انعام بھی، سرخ روئی بھی ہے، آفرین اور تحسین بھی ہے، واہ واہ بھی ہے۔

اور آخر کار نوکری بھی ہے۔ مدرس خوش، پرنسل صاحب راضی، مبتلا کی افتاد تو روزِ پیدائش سے بگڑی ہوئی تھی۔

زنان خانے میں پرورش پاتا تھا کہ اس کے دل میں بدی کا بیج بویا گیا۔ مکتب میں تھا کہ بیج کا درخت ہوا۔ اب مدرسے میں آکر وہ درخت پھلا پھولا۔ گھر میں بچھڑا تھا۔ مکتب میں بچھڑے کا بیل ہوا اور مدرسے میں بیل کا سانڈ۔ کسی قسم کی آوارگی نہ تھی جو اس سے بچی ہو اور کسی طرح کی بے ھودگی نہ تھی جو اس نے نہ کی ہو۔

جس طرح مبتلا مدرسے کے بُرے لڑکوں کی صحبت میں بانکا بنا، چھیلا بنا، طرح دار بنا، مسخرہ بنا، کوچہ دار بنا، ننگ خاندان بنا اور کیا کیا بنا۔ اسی طرح مبتلا تخلص رکھ کر شاعر بنا، نصیحتیں تو رفتہ رفتہ بھولی بسری ہو گئیں۔ شاعری کی یادگار اس کا منحوس تخلص رہ گیا۔ ہم کو تو اس کے نام سے اس قدر نفرت ہو گئی ہے کہ اس کے حالات کا دریافت کرنا کیسا سننے کو بھی جی نہیں چاہتا مگر خیر منہ پر بات آئی رک نہیں سکتی۔

آٹھ برس یہ کم بخت مدرسے میں رہا۔ آخر کچھ نہ کچھ پڑھتا ہی ہو گا کہ عربی کی دوسری جماعت تک اس نے ترقی کی۔ دس روپے مہینہ وظیفہ پاتا تھا۔ برس کے برس انعام بھی ملتے رہتے تھے ایک سال سنا کہ ایسا اچھا امتحان دیا تمغہ ملا۔ یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اور نہ اس سے آوارگی کا الزام رفع ہو سکتا ہے۔ ہم کو اس کی ذکاوت کا حال معلوم ہے وہ اس بلا کا ذہین تھا کہ مدرسے کی پڑھائی اس کے آگے کچھ حقیقت ہی نہ تھی۔

برس میں ایک بار تو امتحان ہوتا تھا۔ اکثر انگریزوں کے بڑے دن سے پہلے پس امتحان کے مہینے ڈیڑھ مہینے آگے سے وہ تیاری کر لیتا ہو گا لیکن فرض کیا کہ وہ اچھی طرح پڑھتا ہے گر بدوضع کو پڑھنے سے فائدہ علم سے حاصل۔ اس سے جاہل بمدراج بہتر ان پڑھ کہیں بھلا۔ مدرسے سے سوا پہر رات گئے بلکہ کبھی آدھی کبھی پچھلی رات کو تو اس کا گھر میں آنے کا معمول شروع سے تھا اور پھر اچھی طرح سورج نکلا کہ اس کے شریر لڑکے لگے گھر پر آکر کنڈی کھٹکھٹانے، دستک دینے اور پکارنے سیٹی بجانے۔

اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ تین تین چار چار دن تک برابر غائب ماں کو یہ تمام تفصیلی حالات معلوم تھے۔ مگر اب اس کی محبت کا دوسرا رنگ تھا۔ بیٹے سے اس قدر ڈرتی تھی جیسے قصائی سے گائے۔ اس کے اندر آپ سے آپ یہ خوف سما گیا تھا کہ بیٹا ہے۔ ماشاء اللہ جوان۔ ایسا نہ ہو میری بات کا بُرا مان کر کہیں کو نکل جائے۔ یا اپنے تئیں ہلاک کرے تو پھر میں کدھر کی ہوئی۔

اس ڈر کے مارے بے چاری کبھی چوں نہیں کرتی تھی اور مبتلا نے اپنے تئیں اس کے نزدیک ایسا ہوا بنا رکھا تھا کہ جب اس کی صورت دیکھتی ہکا بکا ہو کر رہ جاتی۔ پہلے سے بھی مبتلا کی شرارتوں کی باپ سے پردہ داری کی جاتی تھی۔ اب انہیں شرارتوں کی بدکرداریاں ہو گئی تھیں۔ ادھر شرارتوں میں ترقی ہوئی ادھر پردہ داری میں زیادہ اہتمام ہونے لگا۔ مگر باپ نے دھوپ میں داڑھی سفید نہیں کی تھی۔

بڈھا اس کی چال ڈھال سے اس کی گفتگو سے اس کی کن انکھیوں سے تاڑ لیتا تھا۔ مگر بی بی کا مغلوب تھا اور خوب جانتا تھا کہ اس کو بیٹے کے ساتھ بلاکا شغف ہے اور یوں بھی ہر کام میں مساہلت کرنا اس کی ہمیشہ کی عادت تھی اور انہیں وجوہ سے اس نے مبتلا کی اصلاح کی طرف کبھی پوری توجہ نہ کی۔ اب جوان بیٹے کے کیا منہ لگتا۔ ایک کہتا تو دس سنتا آخر اس کے سوائے اور کچھ نہ سوجھ پڑی کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس کو پابند کر دیا جائے۔