غم فراق کا کھٹکا وصال یار میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم فراق کا کھٹکا وصال یار میں ہے  (1870) 
by منشی شیو پرشاد وہبی

غم فراق کا کھٹکا وصال یار میں ہے
خزاں کا خوف ہمیں موسم بہار میں ہے

نکل کے جسم سے آنکھوں میں آ کے ٹھہری ہے
ہماری روح رواں کس کے انتظار میں ہے

کسی کو نقد شہادت نہ دے سکی اب تک
برائے نام یہ کوڑی تری کٹار میں ہے

کدورت ان کو ہے مجھ سے یہ صاف ثابت ہے
جو خط لکھا ہے تو وہ بھی خط غبار میں ہے

شب فراق کے صدمے اٹھاؤں گا کیوں کر
سکت ذرا بھی نہیں اب تو جان زار میں ہے

گناہ گار رہوں صدقے ہوتی ہے رحمت
وہ دوزخی ہوں کہ جنت بھی اختیار میں ہے

نہ جانئے گا کہ میں دور دور رہتا ہوں
تصور آپ کا ہر دم مری کنار میں ہے

دم آ کے آنکھوں میں دیکھے تو راہ ان کی مگر
غضب یہ ہے کہ تغافل مزاج یار میں ہے

شب فراق کا پوچھو نہ حال کچھ وہبیؔ
زیادہ حشر کے دن سے مرے شمار میں ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%BA%D9%85_%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%82_%DA%A9%D8%A7_%DA%A9%DA%BE%D9%B9%DA%A9%D8%A7_%D9%88%D8%B5%D8%A7%D9%84_%DB%8C%D8%A7%D8%B1_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%DB%81%DB%92