عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں
by انعام اللہ خاں یقین

عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں
ہاتھ مت پکڑو مرا یارو گریباں پھر کہاں

چشم تر پر گر نہیں کرتا ہوا پر رحم کر
دے لے ساقی ہم کو مے یہ ابر باراں پھر کہاں

یار جب پہنے جواہر کر دے اے دل جی نثار
جل چک اے پروانے یہ رنگیں چراغاں پھر کہاں

اس طرح صیاد کب آزاد چھوڑے گا تمہیں
بلبلو دھومیں مچا لو یہ گلستاں پھر کہاں

ہے بہشتوں میں یقیںؔ سب کچھ ولیکن درد نئیں
بھر کے دل رو لیجئے یہ چشم گریاں پھر کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse