عدو کی بزم میں اے بزمؔ یہ شب تو بسر کر لو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عدو کی بزم میں اے بزمؔ یہ شب تو بسر کر لو  (1927) 
by عاشق حسین بزم آفندی

عدو کی بزم میں اے بزمؔ یہ شب تو بسر کر لو
اگر دیکھا نہیں جاتا تو منہ اپنا ادھر کر لو

عوض الفت کے دل ہے فیصلہ باہم دگر کر لو
رضا کے ساتھ ہے سودا نہ ڈر کر دو نہ ڈر کر لو

بگڑنے کا بھلا ہے وصل کی صحبت میں کیا موقع
بدی یہ کب تھی ایسے میں تم اپنا منہ ادھر کر لو

فنا ہونا ہے جب غم اور خوشی پھر سب برابر ہے
جہاں میں چار دن کی زیست کیسی ہی بسر کر لو

خوشا شوخی دوپٹہ جب ہٹا سینہ سے فرمایا
تمہیں میری قسم ہے منہ نہ اپنا گر ادھر کر لو

جب اپنے غم کا قصہ بیٹھتا ہوں ان سے کہنے کو
تو کہتے ہیں لب اپنے خشک کر لو چشم تر کر لو

اشارہ پر تمہارے چل رہا ہے عالم امکاں
اسی جانب ہو سب کا رخ تم اپنا منہ جدھر کر لو

شکایت جب کبھی جور و جفا کی ان سے کرتا ہوں
تو سختی سے یہ فرماتے ہیں پتھر کا جگر کر لو

بھروسہ اس کی رحمت پر ہے جب زاہد تو پھر کیا ہے
حسینوں کو تو زندہ رہ کے لو حوروں کو مر کر لو

بہت کار اہم ہے کاٹنا عاشق کی گردن کا
اٹھاؤ تیغ پھر پہلے نزاکت پر نظر کر لو

پہنچ کر سامنے ان کے نہ پھر آواز نکلے گی
یہاں اے حضرت دل جتنا چاہو شور و شر کر لو

تمہارا یاں سے جانا بزمؔ سے دیکھا نہ جائے گا
سحر فرقت کی آ پہنچی ابھی سے منہ ادھر کر لو


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%B9%D8%AF%D9%88_%DA%A9%DB%8C_%D8%A8%D8%B2%D9%85_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%DB%92_%D8%A8%D8%B2%D9%85%D8%94_%DB%8C%DB%81_%D8%B4%D8%A8_%D8%AA%D9%88_%D8%A8%D8%B3%D8%B1_%DA%A9%D8%B1_%D9%84%D9%88