Jump to content

عبث فکر دوا میں ہے پریشاں چارہ گر میرا

From Wikisource
عبث فکر دوا میں ہے پریشاں چارہ گر میرا (1930)
by نشتر چھپروی
324077عبث فکر دوا میں ہے پریشاں چارہ گر میرا1930نشتر چھپروی

عبث فکر دوا میں ہے پریشاں چارہ گر میرا
مرا سر جائے گا تو جائے گا یہ درد سر میرا

اگر کچھ آرزو دل میں مرے ہے تو بس اتنی ہے
ترے تیر نظر کی نذر ہو جائے جگر میرا

ترے پیکان کو دل میں جگہ دی شوق سے میں نے
کلیجہ تو نے دیکھا اے بت بیداد گر میرا

وہ کہتے ہیں کہ ضد ہے آرزوؤں سے تری ورنہ
نہ ہو گر مدعا اس میں تو دل تیرا ہے گھر میرا

میں وہ آفت طلب ہوں رات دن میری دعا یہ ہے
کہ سر جائے تو جائے پر نہ جائے درد سر میرا

ذرا وہ شوخ خنجر باندھ کر مقتل میں آئے تو
نرالا آج ہوگا سب سے مضمون کمر میرا

ادھر پہلو سے اٹھ کر کوئی جانے پر ہے آمادہ
ہوا جاتا ہے غم سے حال ادھر نوع دگر میرا

نکلوایا گیا جس بزم سے سو بار ذلت سے
وہیں پھر لے چلا مجھ کو دل وحشت اثر میرا

رقیبوں کے چلن کو یوں شکایت سامنے میرے
نہیں ہے میری جاں اس چال سے دل بے خبر میرا

مٹا جاتا ہے اب مہر و وفا کا نام عالم سے
ہوا جاتا ہے دنیا سے کوئی دم میں سفر میرا

ترا تیر نظر دیکھوں تسلی کس کی کرتا ہے
ادھر بیتاب دل میرا ادھر نالاں جگر میرا

وہ ان کا وار خنجر کا لگانا مجھ پہ تن تن کر
وہ ہونا قتل گہہ میں شوق سے سینہ سپر میرا

چلایا ناز سے تیر نظر جب اس ستم گر نے
نشانہ بن گیا کس شوق سے نشترؔ جگر میرا


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.