طور بن کر جل گیا یا شوق موسیٰ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طور بن کر جل گیا یا شوق موسیٰ ہو گیا
by منیر بھوپالی

طور بن کر جل گیا یا شوق موسیٰ ہو گیا
ہائے وہ دل جو ترے جلوہ کا شیدا ہو گیا

یک بیک اے التفات یار یہ کیا ہو گیا
درد پہلے دل میں اٹھا پھر تمنا ہو گیا

خاک کر دینا ہے ہستی کا کمال زندگی
قطرہ دریا ہے جو ہم آغوش دریا ہو گیا

ناتوانی صبر کی تلقین جب کرنے لگی
درد ہی ہمدرد بن کر چارہ فرما ہو گیا

رہ گئی دل میں جو حسرت راز الفت بن گئی
اشک بس آنکھوں سے ٹپکا تھا کہ دریا ہو گیا

جھولتی تھی کل اسی گہوارے میں معصومیت
آج یہ دل محشرستان تمنا ہو گیا

ہر تمنا بن رہی ہے اک جہان آرزو
کون یہ دل میں الٰہی جلوہ فرما ہو گیا

کیوں مرے کہنے سے وہ پردے کے باہر آ گئے
عشق تو مجنوں ہے لیکن حسن کو کیا ہو گیا

طعنۂ احباب دنیا کی قیاس آرائیاں
اک تری خاطر مجھے سب کچھ گوارا ہو گیا

اب کہاں لے جائیں اپنی اس طبیعت کو منیرؔ
لو خیال عشق بھی اندوہ افزا ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse