صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے  (1905) 
by مرزا آسمان جاہ انجم

صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے
ہمارا دل ربا کیا جانے کیا ہے

نہ سنبل ہے نہ کالا ہے نہ ناگن
تری زلف رسا کیا جانے کیا ہے

کسی پہلو نہیں آرام تجھ کو
تجھے اے دل ہوا کیا جانے کیا ہے

نہیں معلوم کعبہ ہے کہ قبلہ
خم ابرو ترا کیا جانے کیا ہے

مرا دل لو گے تم یا جان لو گے
تمہارا عندیہ کیا جانے کیا ہے

جفاؤں سے تری بھرنا نہیں دل
تڑپنے میں مزا کیا جانے کیا ہے

ہمیں تو اس سے ہے امید بخشش
مگر اس کی رضا کیا جانے کیا ہے

نظر پھیری نہیں تو نے تو ہم سے
یہ پھر عشوہ نما کیا جانے کیا ہے

تصور میں جو کی ہیں بند آنکھیں
دکھائی دے رہا کیا جانے کیا ہے

بھلا تو آشنا ہوگا کسی کا
ارے نا آشنا کیا جانے کیا ہے

قیامت ہے قد بالا تمہارا
نگاہ فتنہ را کیا جانے کیا ہے

نکلتا ہے دھواں جو آہ کے ساتھ
یہ اے دل جل رہا کیا جانے کیا ہے

بھلا میں کیا اسے بتلاؤں انجمؔ
وہ مجھ سے پوچھتا کیا جانے کیا ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%B5%D9%86%D9%85_%DB%81%DB%92_%DB%8C%D8%A7_%D8%AE%D8%AF%D8%A7_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%92_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%DB%81%DB%92