شوق سے دل کو تہ تیغ نظر ہونے دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق سے دل کو تہ تیغ نظر ہونے دو
by لالہ مادھو رام جوہر

شوق سے دل کو تہ تیغ نظر ہونے دو
جس طرف اس کی طبیعت ہے ادھر ہونے دو

دل کی کیا اصل ہے پتھر بھی پگھل جائیں گے
اے بتو تم مرے نالوں میں اثر ہونے دو

غیر تو رہتے ہیں دن رات تمہارے دل میں
کبھی اس گھر میں ہمارا بھی گزر ہونے دو

ناصحو ہم تو خریدیں گے متاع الفت
تم کو کیا فائدہ ہوتا ہے ضرر ہونے دو

ولولے اگلی محبت کے کہاں سے لائیں
اور پیدا کوئی دل اور جگر ہونے دو

چھیڑنے کو مرے دربان کہا کرتے ہیں
ٹھہرو جلدی نہ کرو ان کو خبر ہونے دو

کیوں مزا دیکھ لیا دل کی کشش کا تم نے
ہم نہ کہتے تھے محبت میں اثر ہونے دو

اے شب وصل و شب عیش جوانی ٹھہرو
میں بھی ہم راہ تمہارے ہوں سحر ہونے دو

رنج و راحت ہے بشر ہی کے لیے اے جوہرؔ
وہ بھی دن دیکھ لیے یوں بھی بسر ہونے دو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse