شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں
Appearance
شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں
دن رات بحر غم میں برنگ حباب ہوں
یہ دور اب تو ہے کہ رقیبوں کی بزم میں
تو مست ہو شراب سے اور میں کباب ہوں
مجھ خوں گرفتہ پر مرے قاتل کمر نہ باندھ
میں آپ اپنے قتل کا خواہاں شتاب ہوں
ہر صبح و شام باغ میں صحرا میں جوں نسیم
اس گل کی جستجو کی ہوس پر خراب ہوں
حیرت سے اس کو دیکھتے ہیں مثل آئنہ
افشائے درد دل سے کھڑا بے جواب ہوں
آگاہ ہے خدا ہی محبؔ روز کس لئے
نظروں میں ان بتاں کی محل عتاب ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |