شب وصل انہیں ضد اگر ہو گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وصل انہیں ضد اگر ہو گئی  (1870) 
by منشی شیو پرشاد وہبی

شب وصل انہیں ضد اگر ہو گئی
نقاب اٹھتے اٹھتے سحر ہو گئی

شب وصل کیا مختصر ہو گئی
پلک مارتے ہی سحر ہو گئی

اگر ان کی ترچھی نظر ہو گئی
مری جان سینہ سپر ہو گئی

نہ کچھ مو شگافوں سے عقدہ کھلا
معما تمہاری کمر ہو گئی

لگی ہے جو اشکوں کی ہر دم جھڑی
گھٹا کیا مری چشم تر ہو گئی

حرم چھوڑ کر میں گیا سوئے دیر
طبیعت کدھر سے کدھر ہو گئی

نہیں رحم اس سنگ دل کو ذرا
مری آہ کیا بے اثر ہو گئی

چھپایا بہت عشق ہم نے مگر
انہیں سب سے پہلے خبر ہو گئی

خبر لی نہ اس غیرت‌ ماہ نے
تڑپتے رہے رات بھر ہو گئی

نہیں کاٹے کٹتی ہے فرقت کی شب
گھڑی مجھ کو اک اک پہر ہو گئی

چھوئے پاؤں میں نے جو اس شوخ کے
حنا باعث درد سر ہو گئی

بتو تم کو سجدے کیے اس قدر
ہماری جبیں سنگ در ہو گئی

کیا اس شکر لب نے اعجاز یہ
بجائی جو نے نیشکر ہو گئی

جمایا جو وہبیؔ نے اپنا قدم
لڑائی محبت کی سر ہو گئی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%B4%D8%A8_%D9%88%D8%B5%D9%84_%D8%A7%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D8%B6%D8%AF_%D8%A7%DA%AF%D8%B1_%DB%81%D9%88_%DA%AF%D8%A6%DB%8C