شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے
by ولی اللہ محب

شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے
مہ پکارے ہے فلک پروردگی تو برف ہے

شاہ گل کا حکم سیاروں کے یہ ہے باغ میں
جو نہ پی کر آئے مے نوکر نہیں بر طرف ہے

سرخ ہے رومال شالی اس کے تحت الجنگ تک
مصحف رخسار پر یا جدول شنگرف ہے

نو خطوں کے دل میں جز مشق ستم طرز وفا
یکسر مو ہو سکے کرسی نشیں کیا حرف ہے

درس علم عشق سے واقف نہیں مطلق فقیہ
نحو ہی میں محو ہے یا صرف ہی میں صرف ہے

مو سے ہے باریک شعر و شاعری کے درمیاں
معنیٔ مصراع قامت کیا قیامت ژرف ہے

زاہد خشک و خنک سے کب ہو صحبت ان کی گرم
آتش تر سے محبؔ جن کا لبالب ظرف ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse