شب فراق نہ کاٹے کٹے ہے کیا کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب فراق نہ کاٹے کٹے ہے کیا کیجے
by ولی اللہ محب

شب فراق نہ کاٹے کٹے ہے کیا کیجے
نہ صبح ہوئے ہے نہ پو پھٹے ہے کیا کیجے

صفا تھا عکس رخ اس کے سے دل کا آئینہ
اب اس پہ زنگ کدورت اٹے ہے کیا کیجے

رحیم و رام کی سمرن ہے شیخ و ہندو کو
دل اس کے نام کی رٹنا رٹے ہے کیا کیجے

بسان ہر مژہ پر پارۂ دل مجروح
ہر ایک پل نہ شمردہ بٹے ہے کیا کیجے

پئے تھا رات تو کل غیر پاس یار شراب
اور آج قسمیں ہی کھا کھا نٹے ہے کیا کیجے

یہ جوں جوں وعدے کے دن رات پڑتے جاتے ہیں
گھڑی گھڑی میں مرا جی کٹے ہے کیا کیجے

رقیب جم کے یہ بیٹھا کہ ہم اٹھے ناچار
یہ پتھر اب نہ ہٹائے ہٹے ہے کیا کیجے

جگر کے ٹکڑوں سے جب تک کہ گود بھر لے آئے
یہ طفل اشک تو رو رو ہٹے ہے کیا کیجے

یہ دخت رز کوئی ایسے لٹی ملے ہے محبؔ
دل اس کی تاک میں اپنا لٹے ہے کیا کیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse