سوال کیا کروں تجھ سے گناہ گار ہوں میں
سوال کیا کروں تجھ سے گناہ گار ہوں میں
نگاہ چار ہو کیوں کر کہ شرمسار ہوں میں
روانہ رکھ کہ جہاں میں ذلیل و خوار ہوں میں
جو ہوں سو ہوں پہ ترے در کا خاکسار ہوں میں
پڑا ہوا ہوں بتوں کی گلی میں دل تھامے
صبا سنبھل کے ذرا چل نحیف و زار ہوں میں
کسی سے مطلب دل میرا حل نہیں ہوتا
سوال مسئلۂ جبر و اختیار ہوں میں
جفا و ظلم اس کے گلا کروں کیوں کر
ستم شعار ہے وہ اور وفا شعار ہوں میں
تمہیں بتاؤ کرے صبر کب تلک کوئی
نہ ہر کسی سے ہنسو تم نہ اشک بار ہوں میں
اسی کو کہتے ہیں یارب نصیب کی یاری
کہ یار وہ بھی نہ ہو اور بے دیار ہوں میں
وفا کا لطف ملے گر ہزار جانیں ہوں
نثار تجھ پہ مری جاں ہزار بار ہوں میں
زباں ہو بند زباں سے اگر سوال کروں
قلم ہوں ہاتھ اگر مدعا نگار ہوں میں
الٰہی جذب محبت میں دے اثر اتنا
کلیجہ تھام لے وہ بھی جو بے قرار ہوں میں
ہزار اپنی کہوں اس کی ایک بھی نہ سنوں
خدا وہ دن کرے اس سے کہیں دو چار ہوں میں
میں مست بادۂ حب علی ہوں اے انجمؔ
کبھی بہک نہ سکے جو وہ بادہ خوار ہوں میں
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |