سمایا جب سے ہے وہ گلعذار آنکھوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سمایا جب سے ہے وہ گلعذار آنکھوں میں  (1870) 
by منشی شیو پرشاد وہبی

سمایا جب سے ہے وہ گلعذار آنکھوں میں
ہر ایک گل نظر آتا ہے خار آنکھوں میں

بتاؤ کس کا ہوا جام آرزو لبریز
کہ نشہ کا ہے ابھی تک خمار آنکھوں میں

یہ کس کے دید کی مشتاق ہے دم آخر
کہ میری روح کو ہے انتظار آنکھوں میں

جو چاہتے ہو عصا ٹیک کر اٹھے بیمار
لگاؤ سرمۂ دنبالہ دار آنکھوں میں

وہ رشک گل جو نہیں ہے ہمارے پہلو میں
برنگ خار سے فصل بہار آنکھوں میں

تمہاری دید کے سودے میں آ گیا سو بار
تڑپ تڑپ کے دل بے قرار آنکھوں میں

اسی سبب سے تو کھلتی نہیں ہے آنکھ مری
پھرا ہی کرتی ہے تصویر یار آنکھوں میں

میں دیکھتا نہیں بے وجہ سبزہ نوخیز
کبھی ہے سبزۂ خط کی بہار آنکھوں میں

مثال مردمک چشم ہے یہ مد نظر
رہیں حضور ہی لیل و نہار آنکھوں میں

دعا یہ رہتی ہے وہبیؔ کہ ان کے تلوے کا
لگاؤں سرمے کی صورت غبار آنکھوں میں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%B3%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%A7_%D8%AC%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%DB%81%DB%92_%D9%88%DB%81_%DA%AF%D9%84%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%B1_%D8%A2%D9%86%DA%A9%DA%BE%D9%88%DA%BA_%D9%85%DB%8C%DA%BA