ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا
by منیر بھوپالی

ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا
دیدۂ شوق تماشا ہے تماشا نہ رہا

دل رہا دل میں مگر جوش تمنا نہ رہا
انجمن رہ گئی اور انجمن آرا نہ رہا

ہے وہی طور وہی برق وہی شان جمال
ہاں کوئی آگ سے اب کھیلنے والا نہ رہا

دامن موج بھی ہاتھوں سے چھٹا جاتا ہے
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا نہ رہا

آج وہ سر ترے قدموں پہ جھکا جاتا ہے
جو حرم میں بھی کبھی ناصیہ فرسا نہ رہا

یک بیک یوں نہ سر بزم اٹھانی تھی نقاب
جلوے بیتاب ہیں اور دیکھنے والا نہ رہا

رہ گئی آنکھ بھی کچھ اشک بہا کر خاموش
یعنی دل قابل اظہار تمنا نہ رہا

دل کہیں تھا کہیں نظریں تھیں خیالات کہیں
میں رہا بزم میں اس طرح کہ گویا نہ رہا

مژدۂ وصل سنا کر بھی اسے دیکھ لیا
ترا دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہا

یوں تو ہر ایک سے کہتے تھے فسانہ دل کا
اس نے جب پوچھا تو پھر کہنے کا یارا نہ رہا

پھر بھی کچھ دل کو تسلی سی تو ہوتی ہے منیرؔ
گو کبھی منتظر وعدۂ فردا نہ رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse