ساتھ غیروں کے ہے سدا غٹ پٹ
ساتھ غیروں کے ہے سدا غٹ پٹ
اک ہمیں سے رکھے ہے دل میں کپٹ
چنگل باز ہیں تری مژگاں
طائر دل کو پل میں لے ہے جھپٹ
تیری اس وضع دل ربائی سے
گھر کے گھر ہو گئے ہیں چوڑ چپٹ
وہ بھی دن پھر دکھائے گا اللہ
رات کو سوئے تو گلے سے لپٹ
پاس جب غیر کو بٹھاتا ہے
جائے ہے دل ترے ملاپ سے ہٹ
دیتے ہو بات بات میں بازی
ایک ہو اپنے کام کے نٹ کھٹ
ناز کی تیغ غیر پر مت کھینچ
دل ہمارا کہیں نہ جاوے کٹ
جس طرح چاند پر ہو ابر سیاہ
زلف یوں مکھڑے پر رہی ہے الٹ
عید ہے آج آ گلے مل لیں
دشمنوں کی تو جائے چھاتی پھٹ
غم میں تیرے ہیں اشک یوں جاری
ہر گھڑی جس طرح چلے ہے رہٹ
عشق وہ گھر ہے جس کے شاہ و گدا
با ادب چومتے رہے چوکھٹ
کل شیََٔ محیط کی تقریر
کھٹ سے انسان کے ہوئے پرگھٹ
دل بیچارہ اک تن تنہا
فوج غم آئے ہے تمام سمٹ
دوست کی ہو مدد تو یک دم میں
جائے یہ معرکہ تمام پلٹ
یاں قدم راہ پر سوائے نہ رکھ
اے محبؔ راہ عشق کی ہے بکٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |