زمانہ میں فسانہ بن گئی دیوانگی میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زمانہ میں فسانہ بن گئی دیوانگی میری
by منیر بھوپالی

زمانہ میں فسانہ بن گئی دیوانگی میری
ترے پردہ نے کی پردہ نشیں پردہ دری میری

تو ہی اے بے خودیٔ شوق کر کچھ رہبری میری
اسی مرکز پہ لیکن آج تک ہے بے خودی میری

ہر اک پردہ اٹھا دے گی کسی دن بے خودی میری
کہ جان منزل مقصود ہے گم گشتگی میری

وہی بے تابیاں جن کو بلائے جاں سمجھتا تھا
وہی بیتابیٔ پیہم بنی ہے زندگی میری

نہ صحرا ہے نہ گلشن ہے نہ رستہ ہے نہ منزل ہے
خدا جانے کہاں لے جا رہی ہے بے خودی میری

ترے جلوے ہر اک شے میں نظر آنے لگے لیکن
یہیں محدود ہو کر رہ نہ جائے بے خودی میری

حدود بے نیازی تک تو مجھ کو کھینچ لائی ہے
نہ جانے اب کہاں لے جائے گی وارفتگی میری

تری صورت نگاہوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتی
کرشمے ہیں ترے جلوؤں کے یا صورت گری میری

نگاہیں ملتفت لب پر تبسم کیف آنکھوں میں
ٹھہر جائے اسی مرکز پہ یا رب زندگی میری

فلک پابوس ہوتا ہے ملائک سجدہ کرتے ہیں
کہاں لے آئی مجھ کو آج شان بندگی میری

نعیم خلد تو بدلہ ہے جاں کا مل گیا لیکن
بہائے درد دل اور قیمت دیوانگی میری

حجابات محبت خود بخود طے ہوتے جاتے ہیں
نگاہ کفر ساماں کر رہی ہے رہبری میری

منیرؔ اک دن زمانہ کو زمانہ میں بنا دوں گا
کہاں تک رائیگاں جائے گی آخر بے خودی میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse