رہتا ہے زلف یار مرے من سے من لگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہتا ہے زلف یار مرے من سے من لگا
by باقر آگاہ ویلوری

رہتا ہے زلف یار مرے من سے من لگا
اے ناگ ترے ہاتھ یہ کیا خوب من لگا

دیکھا ہے جن نے روئے دل افروز کو ترے
بے شک نظر میں باغ ارم اس کی بن لگا

سرسبز نت رکھیں گے انہیں میرے اشک و آہ
اے نو بہار حسن جو چاہے چمن لگا

سینہ سپر کر آؤں گا کوچے میں میں ترے
گرچہ رقیب بیٹھے ہیں واں تن سے تن لگا

کیا فائدہ ہے قصۂ رضوان سے تجھے
کوئی شمع رو پری ستے تو بھی لگن لگا

آگاہؔ خار خار جدائی سے ہے حزیں
یک بار تو گلے سے اسے گل بدن لگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse