روز کہتے تھے کبھی غیر کے گھر دیکھ لیا
Appearance
روز کہتے تھے کبھی غیر کے گھر دیکھ لیا
آج تو آنکھ سے اے رشک قمر دیکھ لیا
کعبۂ دل سے ملی منزل مقصود کی راہ
یار کا ہم نے اسی کوچے میں گھر دیکھ لیا
جانب غیر اشارہ جو ہوا جانتے ہیں
ہم نے خود آنکھ سے دیکھا کہ ادھر دیکھ لیا
کون سوتا ہے کسے ہجر میں نیند آتی ہے
خواب میں کس نے تمہیں ایک نظر دیکھ لیا
جب کہا میں نے نہیں کوئی چلو میرے گھر
خوب رستے میں ادھر اور ادھر دیکھ لیا
بولے چلنے میں نہیں عذر مجھے کچھ لیکن
خوف یہ ہے کسی مفسد نے اگر دیکھ لیا
آہوں سے آگ لگا دیں گے دل دشمن میں
چھپ کے رہتے ہیں جہاں آپ کا گھر دیکھ لیا
بچ گیا نقد دل اب کے تو نظر سے اس کی
آئے گا پھر بھی اگر چور نے گھر دیکھ لیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |