رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث
by ولی اللہ محب

رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث
خوب رویوں سے جہاں کے دل لگانا ہے عبث

کارگر ہوگا ترا افسوں یہ باور ہے تجھے
اس پری پر اے دل وحشی دوانا ہے عبث

جیتے پھر آنے کی پہلے رکھ توقع دل سے دور
ورنہ کوچے میں ستم گاروں کے جانا ہے عبث

خاک ہو کر ایک صورت ہے گدا و شاہ کی
گر موافق تجھ سے اے منعم زمانا ہے عبث

یاد کس کو رحم جی میں کب دماغ و دل کہاں
یاں نہ آنے کا مرے صاحب بہانا ہے عبث

دل شکن ہے صبح دم تیرا ہی گلچیں باغ میں
آشیاں اے عندلیب اس جا بنانا ہے عبث

اے گل خنداں ثبات عمر ہے شبنم سے کم
یاں بہار رنگ پر ہنسنا ہنسانا ہے عبث

واں پھرے ہیں ترکش مژگاں تلاش صید پر
یاں ترا دل تیر حسرت کا نشانا ہے عبث

آبرو کہتے ہیں جس کو ہے محبؔ اک قطرہ آب
جب ڈھلک جاوے تو پھر اس کا اٹھانا ہے عبث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse