دیکھ تو فرقت میں کیا کیا حال دل پر غم ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ تو فرقت میں کیا کیا حال دل پر غم ہوا  (1933) 
by ناصری لکھنوی

دیکھ تو فرقت میں کیا کیا حال دل پر غم ہوا
رات بھر سینے میں اے ظالم بڑا ماتم ہوا

دل کے مرنے سے جہاں کب درہم و برہم ہوا
سینہ کوبی میں نے کی اتنا فقط ماتم ہوا

طاقت فریاد آئی کچھ عجب عالم ہوا
لو قیامت آ گئی درد جگر پھر کم ہوا

ٹانکے ٹوٹے زخم دل کے بڑھ گیا جوش جنوں
کھل گئیں کلیاں بہار آئی نیا عالم ہوا

سچ تو ہے ہمسایہ کی آفت سے ہوتی ہے گزند
تیر سینے پر لگا دل کا عجب عالم ہوا

سخت جانی سے مری تو بھی خجل ہوگا ضرور
دیکھ اے قاتل تری تلوار کا سر خم ہوا

بال کیوں کھولے حسینوں نے بڑھیں رسوائیاں
مجھ کو تو رونا ہے اس کا کیوں مرا ماتم ہوا

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse