دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
Appearance
دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
ہے یقیں کچھ گمان میں کچھ ہے
صنم اپنے کو ہم خدا جو کہیں
کب قصور اس کی شان میں کچھ ہے
کچھ نہ دیکھا کسی مکان میں ہم
کہتے ہیں لا مکان میں کچھ ہے
تشنۂ خوں ہیں لعل لب تیرے
سرخیٔ رنگ پان میں کچھ ہے
تیرے دیدار کی ہوس کے سوا
دیکھ تو میری جان میں کچھ ہے
تو جو تلوار کھینچے ہے مجھ پر
زخم بھی درمیان میں کچھ ہے
دیکھ تو اب جفا کشی کی تاب
مجھ دل ناتوان میں کچھ ہے
دیکھ کر مجھ کو نزع میں تو نے
نہ کہا اس جوان میں کچھ ہے
ہم کو پٹکا زمین کے اوپر
گردش آسمان میں کچھ ہے
فائدہ تجھ کو اے زخود غافل
فکر سود و زیان میں کچھ ہے
یہ زمانہ محبؔ بقول دردؔ
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |