دیکھا جو کچھ جہاں میں کوئی دم یہ سب نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھا جو کچھ جہاں میں کوئی دم یہ سب نہیں
by ولی اللہ محب

دیکھا جو کچھ جہاں میں کوئی دم یہ سب نہیں
ٹک آنکھ موندتے ہی تم اور ہم یہ سب نہیں

تھوڑی سی زیست ہے جو خوشی سے نبھے تو خیر
ورنہ نشاط و خرمی و غم یہ سب نہیں

باغ و بہار و جوش گل و خندۂ صبوح
صوت ہزار و گریۂ شبنم یہ سب نہیں

دنیا و دین دیدۂ دل صبر اور قرار
تو ہی اگر نہیں تو اک عالم یہ سب نہیں

کس کام کے ہیں بے اثری سے اگرچہ ہیں
آہ و فغان و دیدۂ پر نم یہ سب نہیں

بے عشق جتنی خلق ہے انساں کی شکل میں
نظروں میں اہل دید کے آدم یہ سب نہیں

زخم نہان ہجر کو بے وصل اے محبؔ
ہو سود مند بخیہ و مرہم یہ سب نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse