دیر و حرم کو چھوڑ کے اے دل چل بیٹھو میخانے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیر و حرم کو چھوڑ کے اے دل چل بیٹھو میخانے میں  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

دیر و حرم کو چھوڑ کے اے دل چل بیٹھو میخانے میں
خوب گزر جائے گی اپنی ساقی سے یارانے میں

سیر طبیعت ہو جائے گی نشہ جو ہے ہووے گا وہی
فرق نہیں ہے ساقی ہرگز چلو میں پیمانے میں

روح ہے جب تک جسم کے اندر جسم پہ میرے رونق ہے
کاشانہ آباد ہے جب تک بلبل ہے کاشانے میں

دست تمنا قطع ہوا برباد ہوئی ہے حرص و ہوا
زیست کی صورت اپنی بندھی اے نفس ترے مر جانے میں

سچ ہے دل کو اپنے بھی جز یاد صنم کچھ دھیان نہیں
دیکھ تو اے ناصح کیسی ہشیاری ہے دیوانے میں

فکر دنیا سے ہیں چھٹے اس رنج جہاں سے پائی نجات
لاکھ طرح کی راحت پائی اک اپنے مر جانے میں

پیش جنون بختہ اے دل موت تو زیست سے خوشتر ہے
شمع کے آگے رقص کناں تھا پروانہ جل جانے میں

حسن نیرنگ اس مہ رو کا دل حزیں میں رہتا ہے
چشم بینا ہو تو دیکھے بستی ہے ویرانے میں

نقش محبت کہیں نہ پایا لوح دل پر انساں کے
پھرا قلم کی صورت سے میں برسوں اک اک خانے میں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AF%DB%8C%D8%B1_%D9%88_%D8%AD%D8%B1%D9%85_%DA%A9%D9%88_%DA%86%DA%BE%D9%88%DA%91_%DA%A9%DB%92_%D8%A7%DB%92_%D8%AF%D9%84_%DA%86%D9%84_%D8%A8%DB%8C%D9%B9%DA%BE%D9%88_%D9%85%DB%8C%D8%AE%D8%A7%D9%86%DB%92_%D9%85%DB%8C%DA%BA