دوانہ مجھ سا کب جیتا ہے کیوں تدبیر کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوانہ مجھ سا کب جیتا ہے کیوں تدبیر کرتے ہیں
by انعام اللہ خاں یقین

دوانہ مجھ سا کب جیتا ہے کیوں تدبیر کرتے ہیں
کوئی دن چلنے پھرنے دیں عبث زنجیر کرتے ہیں

ہوائے گرم کے لگنے سے کب پتھر پگھلتا ہے
یہ نالے ان بتوں کے دل میں کب تاثیر کرتے ہیں

خدا کی بندگی کہئے اسے یا عشق معشوقی
یہ نسبت ایک ہے سو سو طرح تعبیر کرتے ہیں

دوانے ہیں سیانے چھوڑ دو تم نقش کو ان کے
پرائے گھر کی پریوں کے تئیں تسخیر کرتے ہیں

نگہ کرنے میں ان کے کام ہوتا ہے تمام اس کا
یقیںؔ کے حق میں یہ خوباں بہت تقصیر کرتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse