دنیا میں یہی چور بناتا ہے عسس کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا میں یہی چور بناتا ہے عسس کو  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

دنیا میں یہی چور بناتا ہے عسس کو
اللہ کرے قطع کہیں دست ہوس کو

دل دیتا ہوں میں قامت دل دار کو اپنا
لٹکاتا ہوں میں نخل محبت میں قفس کو

جیسا کہ یہ دل دام محبت میں پھنسا ہے
کم دیکھتا ہوں مرغ گرفتار قفس کو

نکلے ہیں خط و خال لب یار کے نزدیک
اللہ نے دیا شہد و شکر مور و مگس کو

دوڑاتی ہے یہ روح مری جسم کو ہر سو
اسوار اڑاتا ہے زمانے میں فرس کو

زخم دل شیدا ہوا اچھا نہ مسیحا
خیاط ازل سل نہ سکا چاک قفس کو

رہتے تھے ہم آغوش جوانی میں بتوں سے
اس پیری کے آتے ہی ترسنے لگے مس کو

کب پیچ سے اس رشتۂ الفت کے چھٹوں گا
توڑوں گا نہ جب تک کہ میں اس تار نفس کو

بیماری الفت سے جو میں بچ گیا ناصح
ٹل جاؤں گا اب کی کہیں دو چار برس کو

دامن کا نشاں ہے نہ گریباں کا پتا ہے
اے دست جنوں مانتا ہوں میں ترے بس کو

صیاد جو دیکھے مجھے الفت کی نظر سے
گلزار سے بہتر کہیں سمجھوں میں قفس کو

اے دل کبھی کہنے کا نہیں راز محبت
اس دشت میں دوڑا نہ طبیعت کے فرس کو

دل دیتا ہے اس طفل پری زاد کو ناداں
کیوں منتہیؔ شعلے سے بھڑاتا ہے تو خس کو


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%DB%8C%DB%81%DB%8C_%DA%86%D9%88%D8%B1_%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%AA%D8%A7_%DB%81%DB%92_%D8%B9%D8%B3%D8%B3_%DA%A9%D9%88