دنیا میں کیا کسی سے سروکار ہے ہمیں
Appearance
دنیا میں کیا کسی سے سروکار ہے ہمیں
تجھ بن تو اپنی زیست ہی دشوار ہے ہمیں
تو ہی نہیں تو جان تری جان کی قسم
یہ جان کس کے واسطے درکار ہے ہمیں
گرتے ہیں دکھ سے تیری جدائی کے ورنہ خیر
چنگے بھلے ہیں کچھ نہیں آزار ہے ہمیں
مر بچ کے دن تو گزرے ہے جوں توں پر اس طرح
نظروں میں نور مہر شب تار ہے ہمیں
پھر رات کی نہ پوچھ حقیقت کہ صبح تک
آہ و فغان و دیدۂ خونبار ہے ہمیں
ہو کر اداس باغ میں جاویں کبھو تو واں
نظروں کے بیچ ہر رگ گل خار ہے ہمیں
دن کا وہ حال رات کا وہ کچھ بیان ہے
سیر چمن سو دل سے کچھ اے یار ہے ہمیں
تس پر بھی ہم سے ملنے کا انکار ہے تجھے
جس میں تری رضا سوئے اقرار ہے ہمیں
شکوے بھرے ہیں دل میں ولیکن محبؔ من
کب تیرے آگے طاقت گفتار ہے ہمیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |