دل ہے روشن کہ ہے دل میں رخ روشن ان کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہے روشن کہ ہے دل میں رخ روشن ان کا  (1914) 
by مردان صفی

دل ہے روشن کہ ہے دل میں رخ روشن ان کا
زیر فانوس بدن شمع ہے جوبن ان کا

دید ان کی ہے وصال ان کا تصور ان کا
جان ان کی ہے جگر ان کا ہے تن من ان کا

ہیں وہ کاشانۂ دل میں کبھی آنکھوں میں کبھی
خانہ تن ہے مرا گھر بھی اور آنگن ان کا

ہے تصور جو انہیں کا تو وہ ہیں پیش نگاہ
ہو خیال ان کے سوا گر تو ہے رہزن ان کا

ہیں تمہیں میں وہ تم اپنے کو تو دیکھو ہو کون
جن کو کہتے ہو کہ ہے عرش پہ مسکن ان کا

جان ان کی ہے ہر اک جان کہاں پر وہ نہیں
دونوں عالم میں یہی رمز ہے مزمن ان کا

بیٹھے بیٹھے وہ کیا کرتے ہیں ہر گل پہ نظر
دل عاشق ہے مگر سیر کا گلشن ان کا

وہ ہمارے ہیں ہم ان کے ہیں انہیں کا یہ ظہور
جان ان کی ہے یہی جان بھی تن من ان کا

آ کے گھر میں مرے مرداںؔ نہ وہ جانے پائیں
تا قیامت نہ چھٹے ہاتھ سے دامن ان کا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AF%D9%84_%DB%81%DB%92_%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86_%DA%A9%DB%81_%DB%81%DB%92_%D8%AF%D9%84_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%B1%D8%AE_%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86_%D8%A7%D9%86_%DA%A9%D8%A7