دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی (1914)
by پروین ام مشتاق
308316دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی1914پروین ام مشتاق

دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی
وہ تھا چین زلف میں یہ بے خطا پکڑی گئی

صبح کوئے یار میں باد صبا پکڑی گئی
یعنی غیبت میں گلوں کی مبتلا پکڑی گئی

دل چڑھا مشکل سے طاق ابروئے خم دار پر
سو جگہ رستہ میں جب زلف رسا پکڑی گئی

جان کر آنکھیں چرائیں تو نے ہم سے بزم میں
تیری چوری دیکھ لی کیا بد نما پکڑی گئی

ہے اسی میں قلب محزوں شرطیہ کہتا ہوں میں
کھول مٹھی تیری چوری مہ لقا پکڑی گئی

مست ہو کر اس کی خوشبو سے گرا تھا بچ گیا
جب سنبھلنے کو وہ زلف مشک سا پکڑی گئی

ہر طرف صحن چمن میں کہتی پھرتی ہے نسیم
گل سے ہنستی کھلکھلاتی موتیا پکڑی گئی

اپنے ہاتھوں پر لئے پھرتے ہیں وہ ہر دم حلف
آڑ قسموں کی تو مجھ سے بارہا پکڑی گئی

رخ سے گل کو تھا تعلق زلف سے سنبل کو میل
ایک جا گانٹھا اسے یہ ایک جا پکڑی گئی

یار ہے خنجر بکف اور جاں نثاروں کا ہجوم
ہائے یہ کس جرم میں خلق خدا پکڑی گئی

آپ ہی کا آسرا ہے آپ کیجے گا مدد
حشر میں پرویںؔ اگر یا مصطفیٰ پکڑی گئی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AF%D9%84_%DA%A9%DB%8C_%DA%86%D9%88%D8%B1%DB%8C_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%AC%D9%88_%DA%86%D8%B4%D9%85_%D8%B3%D8%B1%D9%85%DB%81_%D8%B3%D8%A7_%D9%BE%DA%A9%DA%91%DB%8C_%DA%AF%D8%A6%DB%8C