دل میں ہجوم شوق و تمنا لیے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں ہجوم شوق و تمنا لیے ہوئے
by منیر بھوپالی

دل میں ہجوم شوق و تمنا لیے ہوئے
جاتا ہوں تیری بزم سے کیا کیا لیے ہوئے

نیرنگیٔ جمال ہے جلوہ گہہ خیال
اس دل میں ہوں میں حسن کی دنیا لیے ہوئے

امید زیست اس کو ہو کیا جس کے واسطے
آئے پیام موت مسیحا لیے ہوئے

وہ جلوہ گاہ ناز ہو اور چشم شوق میں
ہوں کس قدر میں دل میں تمنا لیے ہوئے

یہ مسکرا کے کس نے نظر دل پہ ڈال دی
ہر ہر تڑپ ہے شان تمنا لیے ہوئے

ارماں کی فکر کس کو تمنا کا ذکر کیا
دل خود ہے اک نظر کا سہارا لیے ہوئے

ڈرنے لگے ہیں اب وہ نظر سے مری منیرؔ
گویا سکوت بھی ہے تقاضا لیے ہوئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse