دل جب سے ترے ہجر میں بیمار پڑا ہے
Appearance
دل جب سے ترے ہجر میں بیمار پڑا ہے
جینے سے خفا جان سے بے زار پڑا ہے
سودا نہ بنا گیسوئے جاناں سے تو کیا غم
لے لیں گے کہیں اور سے بازار پڑا ہے
پرہیز تپ ہجر سے ہے تجھ کو جو اے دل
تو اور بھی آگے کبھی بیمار پڑا ہے
فرمائیے روکے سے رکے ہیں کبھی عاشق
دروازے پہ قفل آپ کے سو بار پڑا ہے
میں دیر و حرم ہو کے ترے کوچے میں پہنچا
دو منزلوں کا پھیر بس اے یار پڑا ہے
کی ترک محبت تو لیا درد جگر مول
پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے
توقیر نہیں انجمن خاص میں دل کی
شیشہ ترے مے خانہ میں بے کار پڑا ہے
کچھ شام جدائی میں سجھائی نہیں دیتا
پردہ خرد و ہوش پہ اے یار پڑا ہے
جوہرؔ کہیں بکتی ہی نہیں جنس محبت
کیا قحط وفا کا سر بازار پڑا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |