دلوں پر یہ نقش اس نے اپنا بٹھایا
Appearance
دلوں پر یہ نقش اس نے اپنا بٹھایا
کہ جو چوٹ پر صید آیا بٹھایا
مثال کبوتر مرے دل کو اس نے
بھگایا بلایا اٹھایا بٹھایا
ترے آتشیں حسن نے شمع کو شب
کھپایا جلایا گلایا بٹھایا
اٹھایا اسی غم نے دنیا سے پیارے
کبھی تم نے ہم کو نہ تنہا بٹھایا
سمجھ تیری الٹی ہے اے جان عالم
کہ اپنا اٹھایا پرایا بٹھایا
نہ بولے لحد میں بھی ہم ڈر سے تیرے
فرشتوں نے کتنا جگایا بٹھایا
گیا کوٹھے پر وہ یہ کی مہ نے عظمت
کہ اجلا بچھونا بچھایا بٹھایا
یہ وہ قیس ہے خاص شاگرد میرا
پکڑ کان جس کو اٹھایا بٹھایا
وقارؔ اس غزل کی زمیں حد بری تھی
بہت زور دے کر بٹھایا بٹھایا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |