درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا  (1930) 
by نشتر چھپروی

درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا
تیرا بیمار مسیحا سے بھی اچھا نہ ہوا

آپ ہی کہئے کہ یہ غمزۂ بیجا نہ ہوا
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا

بے مروت نہ سہی آپ مگر یہ کیا ہے
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا

آپ کی شرم بھی دنیا سے نرالی نکلی
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا

تو تڑپ اپنی دکھانے تو چلا ہے اے دل
اور وہ شوخ اگر محو تماشا نہ ہوا

دیکھتے ہی مجھے برسانا یہ پتھر کیسا
تیرا عاشق نہ ہوا میں کوئی دیوانہ ہوا

وہ شب وصل بھی آئے تو چڑھائے تیور
بخت برگشتہ مرا آج بھی سیدھا نہ ہوا

میرے حصے کا نہ ساقی نے بھرا جام اب تک
اور لبریز یہاں عمر کا پیمانہ ہوا

حور ہو اس بت رعنا کے مقابل توبہ
واعظو تم کو عطا دیدۂ بینا نہ ہوا

ہنس پڑا چپکے سے وہ غنچہ دہن کچھ کہہ کر
ایسا یہ وصل کا وعدہ ہوا گویا نہ ہوا

حیف صد حیف کہ رحم آ ہی گیا قاتل کو
نہ ہوا شوق شہادت مرا پورا نہ ہوا

ہاتھ آیا نہ کبھی وہ گل نخل خوبی
کبھی سرسبز مرا باغ تمنا نہ ہوا

قابل ذکر تھی کس دن نہ مری رسوائی
یار کی بزم میں کس دن مرا چرچا نہ ہوا

بخت چمکا نہ کبھی میرے سیہ خانے کا
میرا مہمان کبھی وہ بت رعنا نہ ہوا

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا مرے لاشے کی طرف
اس ستم گر سے اتنا بھی تو دیکھا نہ ہوا

چشم ساقی کا تصور ہوا رہبر میرا
جب روانہ کبھی میں جانب مے خانہ ہوا

سخت جانی نے مری مجھ کو کیا کیا نادم
حوصلہ یار کی تلوار کا پورا نہ ہوا

لاکھ مارا کیا سر خنجر قاتل نشترؔ
سخت جانی کا مری بال بھی بیکا نہ ہوا

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse