خدا خدا کر کے آئے بھی وہ تو منہ لپیٹے پڑے ہوئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خدا خدا کر کے آئے بھی وہ تو منہ لپیٹے پڑے ہوئے ہیں  (1905) 
by مرزا آسمان جاہ انجم

خدا خدا کر کے آئے بھی وہ تو منہ لپیٹے پڑے ہوئے ہیں
نہ کہتے ہیں کچھ نہ سنتے ہیں کچھ کسی سے جیسے لڑے ہوئے ہیں

ہزارہا منتیں کریں گے لپٹ کے قدموں پہ سر دھریں گے
نہ جانے دیں گے نہ جانے دیں گے عبث وہ بگڑے کھڑے ہوئے ہیں

سوال کرتے ہیں مجھ سے کیا کیا پئے خدا میرے راہ بر آ
پڑا میں تکتا ہوں تیرا رستہ نکیر و منکر کھڑے ہوئے ہیں

رہی جو ان سے تمہیں کدورت تو بڑھ گئی وحشیوں کی وحشت
اڑائی اس درجہ خاک حسرت کمر کمر تک گڑے ہوئے ہیں

ادھر تو جینے سے ہم ہیں عاری ادھر منگاتے ہو تم سواری
یہ کیسی ہیں گرمیاں تمہاری پھپھولے دل میں پڑے ہوئے ہیں

فریبی آنکھیں رسیلی چتون ادا اشارہ نگاہ رہزن
یہ اپنے دو تین ہیں جو دشمن نظر میں انجم تڑے ہوئے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AE%D8%AF%D8%A7_%D8%AE%D8%AF%D8%A7_%DA%A9%D8%B1_%DA%A9%DB%92_%D8%A2%D8%A6%DB%92_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%D9%88%DB%81_%D8%AA%D9%88_%D9%85%D9%86%DB%81_%D9%84%D9%BE%DB%8C%D9%B9%DB%92_%D9%BE%DA%91%DB%92_%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA