خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم (1914)
by پروین ام مشتاق
308326خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم1914پروین ام مشتاق

خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم
ایک ساغر کو بھرو تم ایک پیمانے کو ہم

مجھ سے ہم آغوش ہو کر یوں کہا اور سچ کہا
ہوشیار اس طرح کر دیتے ہیں دیوانے کو ہم

نزع میں آئے ہیں صد افسوس جیتے جی نہ آئے
وہ ہیں آنے کو تو اب تیار ہیں جانے کو ہم

بے نتیجہ ان پہ مرنا یاد آتا ہے ہمیں
شمع پر جب دیکھتے ہیں مرتے پروانے کو ہم

کوہ کن اور قیس کی قبروں سے آتی ہے صدا
کیا مکمل کر گئے الفت کے افسانے کو ہم

ایک پتا بھی نہیں ہلتا بجز حکم خدا
کس طرح آباد کر لیں اپنے ویرانے کو ہم

ایک دن یہ ہے کہ ہیں اک شمع رو پر خود نثار
ایک دن وہ تھا برا کہتے تھے پروانے کو ہم

ابرووں نے سچ کہا اس کے اشارہ کی ہے دیر
دیکھتے بالکل نہیں پھر اپنے بیگانے کو ہم

جان جائے یا رہے اس کو سنائیں گے ضرور
قیس کے پردہ میں پرویںؔ اپنے افسانے کو ہم


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%DA%A9_%DA%A9%D8%B1_%DA%88%D8%A7%D9%84%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%DA%86%D8%A7%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D8%AA%D9%88_%D9%85%DB%92_%D8%AE%D8%A7%D9%86%DB%81_%DA%A9%D9%88_%DB%81%D9%85