حسن پر زیبا نہیں یہ لن ترانی آپ کی
حسن پر زیبا نہیں یہ لن ترانی آپ کی
چار دن کی چاندنی ہے نوجوانی آپ کی
ہم بھی کچھ منہ سے جو کہہ بیٹھیں تو پھر کتنی رہے
دیکھیے اچھی نہیں یہ بد زبانی آپ کی
کچھ سمجھ میں حال یہ آتا نہیں حیران ہوں
آج ہے کیسی یہ مجھ پر مہربانی آپ کی
باز آئے ہم یہ اپنا آپ چھلا لیجیے
ہر کسی کے ہاتھ میں ہے اب نشانی آپ کی
راہ میں بھی دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں حضور
آج کل ہے کس قدر نامہربانی آپ کی
دو گھڑی اک رنگ پر قائم نہیں حسن شباب
کیا مصور کھینچے تصویر جوانی آپ کی
آب حیواں ہے کہیں زہر ہلاہل ہے کہیں
تلخ گوئی آپ کی شیری زبانی آپ کی
خواب میں ہم کو نہ آنے دیتے تو ہم جانتے
کی رقیبوں نے یہ کیسی پاسبانی آپ کی
اپنے مرنے کا نہیں غم رنج ہے اس بات کا
آج انگلی سے اترتی ہے نشانی آپ کی
حال دل سنتے نہیں یہ کہہ کے خوش کر دیتے ہیں
پھر کبھی فرصت میں سن لیں گے کہانی آپ کی
ہم کو یہ دولت کبھی ملتی تو ہم بھی جانتے
ہوگی جس کے واسطے ہوگی جوانی آپ کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |