جی چاہے کعبے جاؤ جی چاہے بت کو پوجو
جی چاہے کعبے جاؤ جی چاہے بت کو پوجو
یہ سن رکھو محبؔ تم عاشق کبھو نہ ہوجو
خوں سو دلوں کا ہوگا مشاطہ تیری گردن
زلفوں کا اس کی ٹوٹا شانے سے ایک مو جو
جس جا فرشتے کے پر جلتے ہوں پاؤں دھرتے
دل اس گلی میں سر سے شایاں ہے جائے تو جو
اک دم میں دیکھ لیجو پھر جیب پارہ پارہ
بے فائدہ ہے ناصح کرتا ہے تو رفو جو
کس رشک مہر و مہ کے شائق ہیں دیکھنے کے
ہیں مہر و ماہ پھرتے دن رات کو بہ کو جو
پا کر تجھے حلاوت کیا کیا اٹھاتے ہیں وہ
کچھ دل ہی دل میں تیری کرتے ہیں جستجو جو
کیا کیا نہ داغ حسرت سب دل ہی دل میں کھاویں
مجلس میں گل رخوں کی آوے وہ شمع رو جو
تکتا مقابل اس کے کس رو سے ماہ ہووے
گرم سخن ہو ذرہ وہ مہر شعلہ خو جو
تھی موج آہوئے چیں اور سب حباب نافہ
دریا پر اس نے کھولے گیسوۓ مشکبو جو
سیل سرشک میرے پہنچے ہے غم میں تیرے
گلزار میں رواں ہے اے گل یہ آب جو جو
گلشن میں گر وہ میکش آوے شراب پینے
گل کا بھرے پیالہ غنچے کی ہے سبو جو
کالے کے کاٹنے کی چڑھتی ہے لہر دل پر
زلف سیاہ اس کی یاد آئے ہے کبھو جو
معنی شناس ہی کچھ رتبے کو اس کے سمجھے
اک طرز کا ہے اپنا انداز گفتگو جو
عاشق نہ ہم تو ہوتے پر اے محبؔ بغل میں
دل ہے وہ دشمن جاں پیتا رہے لہو جو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |