جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں
ایسے پاپڑ بہت سے بیلے ہیں

گہ حضوری ہے گاہ ہے دوری
گہ اکیلے ہیں گہ دو کیلے ہیں

اسپ تازی نظر نہیں آتے
سو کھروں سے بھرے طویلے ہیں

کہتے ہیں یاں جسے قمار عشق
کھیل ایسے بہت سے کھیلے ہیں

جیتے ہیں وہ قمار عشق میں یار
جان پر اپنی جو کہ کھیلے ہیں

ٹھہرے کب جنگ حسن میں یہ شیخ
ایک مدت کے یہ بھگیلے ہیں

پاس اپنے دوئی کا نام نہیں
جب سے پیدا ہوئے اکیلے ہیں

نہ دکھانا لحد میں آنکھیں نکیر
پاس اپنے بھی قل کے ڈھیلے ہیں

کفر و دیں کا ہو فیصلہ کیوں کر
ایک مدت کے یہ منجھیلے ہیں

دیر و کعبہ کی بھیڑ بھاڑ ہے کیا
ایسے دیکھے بہت سے میلے ہیں

گریۂ پر اثر کی شدت ہے
صاف آب بقا کے ریلے ہیں

بھیجا اپنا خیال اس بت نے
جب سنا منتہیؔ اکیلے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D9%88%D8%B1_%D8%A7%D9%81%D9%84%D8%A7%DA%A9_%D8%A8%D8%B3%DA%A9%DB%81_%D8%AC%DA%BE%DB%8C%D9%84%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA