جوانی کی حالت گزر جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوانی کی حالت گزر جائے گی  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

جوانی کی حالت گزر جائے گی
چڑھی ہے جو سر پر اتر جائے گی

جدھر کو مری چشم تر جائے گی
ادھر کام دریا کا کر جائے گی

زمانے کی ایذا کا شکوہ نہ کر
گزرتے گزرتے گزر جائے گی

کھلے گا تجھے عشق بازی کا حال
یہ حرص ہوا جبکہ مر جائے گی

مرے جسم خاکی سے ہو کے جدا
یہ روح رواں پھر کدھر جائے گی

مرے نغموں سے عندلیب چمن
کہاں اڑ کے تو مشت پر جائے گی

توجہ تری او بت بے وفا
مرا کام آخر کو کر جائے گی

بہار چمن جبکہ ہوگی خزاں
مری وحشت دل کدھر جائے گی

اگر جذبۂ دل پہ قابو رہا
شب وصل کی پھر ٹھہر جائے گی

کھنچی ہے جو تیغ محبت دلا
یہی ایک دن تیرے سر جائے گی

چڑھی ہوگی کچے گھڑے کی جسے
اترتے اترتے اتر جائے گی

قمار محبت میں گر آہ کی
یہ جیتی ہوئی بازی ہر جائے گی

مری مرگ ایسی ہے اے منتہیؔ
کہ جس کی عدم تک خبر جائے گی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D9%88%D8%A7%D9%86%DB%8C_%DA%A9%DB%8C_%D8%AD%D8%A7%D9%84%D8%AA_%DA%AF%D8%B2%D8%B1_%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%92_%DA%AF%DB%8C