جب عشق کا جنوں مرے سر پر سوار تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب عشق کا جنوں مرے سر پر سوار تھا  (1930) 
by نشتر چھپروی

جب عشق کا جنوں مرے سر پر سوار تھا
دل کو قرار تھا نہ جگر کو قرار تھا

دل بے قرار تھا نہ جگر بے قرار تھا
تیرا خیال پاس شب انتظار تھا

پھولوں کے ہار تربت اغیار پر چڑھے
مشق ستم کے واسطے میرا مزار تھا

کیوں کر نہ دیتے غم کو ترے دل میں ہم جگہ
فرقت میں اپنا ایک ہی تو غم گسار تھا

وہ پائمال کر کے مرے دل کو کہتے ہیں
یہ دل وہی ہے ہجر میں جو بے قرار تھا

ملتا نہ تھا مزاج دل بے قرار کا
تیر نگاہ ناز کا جب وہ شکار تھا

میں کیا کہوں کہ حال مرا کیا تھا ہجر میں
دن رات لب پہ نالۂ بے اختیار تھا

اب دل ہے اور ذلت و رسوائیٔ جنوں
نشترؔ کبھی یہ مایۂ صد افتخار تھا

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse