جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں  (1870) 
by منشی شیو پرشاد وہبی

جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں
تجھ میں او نالۂ جاں سوز اثر کچھ بھی نہیں

تیغ ابرو وہ دکھا کر یہی فرماتے ہیں
اس کے آگے جو نہ ہو سینہ سپر کچھ بھی نہیں

حالت نزع میں تم آئے ہو کیوں کر دیکھوں
نور آنکھوں میں اب اے نور نظر کچھ بھی نہیں

گو خطائیں نہیں ہیں کچھ مری پر سب کچھ ہیں
ظلم و جور آپ کے سب کچھ ہیں مگر کچھ بھی نہیں

تپ فرقت نے یہاں اپنا کیا کام تمام
بے خبر آج تلک تجھ کو خبر کچھ بھی نہیں

رات دن اس رخ و گیسو کا تصور ہے مجھے
مشغلہ اس کے سوا شام و سحر کچھ بھی نہیں

عارضی حسن پہ نازاں ہیں عبث یہ مہوش
رات بھر نور کا عالم ہے سحر کچھ بھی نہیں

منزل گور میں کیا دیکھیے ہم پر گزرے
غم عصیاں کے سوا زاد سفر کچھ بھی نہیں

کیوں یم اشک میں تو نے نہ ڈبویا مجھ کو
آبرو اب تری او دیدۂ تر کچھ بھی نہیں

ہے بجا ہیچ جو سمجھے ہیں اسے سب شاعر
غور سے دیکھتے ہیں تو وہ کمر کچھ بھی نہیں

عالم خواب میں کس طرح جہاں کو سمجھوں
کیوں یہ سب کچھ نظر آتا ہے اگر کچھ بھی نہیں

عاشقی کر کے نہ پھل پاؤ گے ہرگز وہبیؔ
نخل الفت میں بجز داغ ثمر کچھ بھی نہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D9%85%D8%B1%DB%8C_%D8%A7%D9%86_%DA%A9%D9%88_%D8%AE%D8%A8%D8%B1_%DA%A9%DA%86%DA%BE_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA