جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق
Appearance
جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق
قابل تعریف ہے تیرے فدائی کا عشق
کیسی مصیبت ہے یہ گل کو خموشی کا شوق
بلبل بیتاب کو ہرزہ سرائی کا عشق
پڑ گئی بکنے کی لت ورنہ یہاں تک نہ تھا
واعظ نافہم کو ہرزہ سرائی کا عشق
کرتا ہوں جو بار بار بوسۂ رخ کا سوال
حسن کے صدقے سے ہے مجھ کو گدائی کا عشق
تم کو خدا نے دیا ساری خدائی کا حسن
مجھ کو عطا کر دیا ساری خدائی کا عشق
عاشق و معشوق کی ہائے نبھے کس طرح
ان کو کدورت کا شوق مجھ کو صفائی کا عشق
پوچھ لے پرویںؔ سے یا قیس سے دریافت کر
شہر میں مشہور ہے تیرے فدائی کا عشق
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |