جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق  (1914) 
by پروین ام مشتاق

جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق
قابل تعریف ہے تیرے فدائی کا عشق

کیسی مصیبت ہے یہ گل کو خموشی کا شوق
بلبل بیتاب کو ہرزہ سرائی کا عشق

پڑ گئی بکنے کی لت ورنہ یہاں تک نہ تھا
واعظ نافہم کو ہرزہ سرائی کا عشق

کرتا ہوں جو بار بار بوسۂ رخ کا سوال
حسن کے صدقے سے ہے مجھ کو گدائی کا عشق

تم کو خدا نے دیا ساری خدائی کا حسن
مجھ کو عطا کر دیا ساری خدائی کا عشق

عاشق و معشوق کی ہائے نبھے کس طرح
ان کو کدورت کا شوق مجھ کو صفائی کا عشق

پوچھ لے پرویںؔ سے یا قیس سے دریافت کر
شہر میں مشہور ہے تیرے فدائی کا عشق


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D8%AA%D8%A7_%D8%B1%DB%81%D8%A7_%D9%82%D9%84%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%B3%D8%A7%D8%B1%DB%8C_%D8%AE%D8%AF%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%DA%A9%D8%A7_%D8%B9%D8%B4%D9%82