تیسرا خطبہ، 5 دسبر 1852ء

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

گارساں دتاسی

تیسرا خطبہ

حضرات! ہماری (فرانسیسی) زبان میں "ہندوستانی" اس زبان کے حق میں جس کے لیے یہ استعمال کیا جاتا ہے، ناموزوں ہے اور اسے اس نام سے یاد کرنا ہماری بدمذاقی ہے۔ کیونکہ ہم نے یہ لفظ ہندوستان کی زبانوں سے براہ راست جوں کا توں لے لیا ہے۔ (Hindustanien) یعنی ہندوستانی کہا جا سکتا ہے۔ مگر انگریزوں کی تقلید میں ہم نے بھی اس کی ابتدائی شکل قائم رکھی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ہندوستانی اہل ہندوستان کی زبان ہے مگر یہ زبان اپنی حقیقی حدود سے باہر بھی بولی جاتی ہے۔ خصوصاً مسلمان اور (انگریزی فوج کے دیسی) سپاہی اس کو تمام جزیرہ نمائے ہندوستان نیز ایران، تبت اور آسام تک بولتے ہیں۔ پس اس زبان کے لیے لفظ انڈین یا ہندی جو ابتدا میں اس کو دیا گیا تھا اور جس نام سے کہ اس ملک کے باشندے اب تک اس کو موسوم کرتے ہیں اس نام سے زیادہ موزوں ہے جو اہل یورپ نے عام طور پر اختیار کیا ہے۔ اہل یورپ لفظ ہندی سے ہندؤوں کی بولی مراد لیتے ہیں جس کے لیے ہندوی کا نام بھی دیا جاتا ہے جو زیادہ مطابق قواعد ہے اور مسلمانوں کی بولی کے واسطے ہندوستانی کا نام استعمال کرتے ہیں۔ خیر یہ جو کچھ بھی ہوا ہندوستان کی اس جدید زبان کی دو بڑی اور خاص شاخیں برطانوی ہند کے بڑے حصے میں بولی جاتی ہیں، اور شمال کے مسلمانوں کی زبان یعنی ہندوستانی اردو صوبہ ہائے شمالی و مغربی کی سرکاری زبان قرار دی گئی ہے۔ اگرچہ ہندی بھی اردو کے ساتھ ساتھ اسی طرح اس علاقے میں قائم ہے جیسے کہ وہ سابق میں فارسی کے ساتھ تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان بادشاہ ہمیشہ ایک ہندی سیکرٹری جو ہندی نویس کہلاتا تھا اور ایک فارسی سیکرٹری جس کو وہ فارسی نویس کہتے تھے، رکھا کرتے تھے تاکہ ان کے احکام ان دونوں زبانوں میں لکھے جائیں۔ اسی طرح انگریزی حکومت صوبہ ہائے شمالی و مغربی میں ہندو آبادی کے مفاد کے لیے اکثر اوقات سرکاری اعلانات و قوانین کا فارسی خط والے اصل اردو متن کے ساتھ ہندی ترجمہ بھی دیوناگری حروف میں دیتی ہے۔

حضرات! میں نے اس سے قبل آپ کے سامنے کئی مرتبہ ہندوستانی علم و ادب اور اس کی مختلف شاخوں کی نسبت تقریر کی ہے، آپ کو معلوم ہے کہ میری تالیف کردہ اس زبان کی تاریخ کی پہلی جلد میں نے 750 مصنفوں اور آٹھ سو سے زیادہ کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کی تیسری جلد میں جس کے طبع ہونے میں بعض وجوہ سے تاخیر ہو گئی ہے، میں اس سے دو چند جدید مصنفوں کا اور اسی قدر کتابوں کا احوال لکھوں گا۔ دیسی سوانح نویس عموماً صرف ان لوگوں کے چند اشعار لکھ دینے پر اکتفا کرتے ہیں جن کی سوانح عمری وہ لکھ رہے ہیں اور ان کی خاص خاص تصانیف اور تالیفات کا ذکر نہیں کرتے۔

اس وقت میں ان بے شمار مصنفین میں سے صرف تین کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں، جن کے متعلق میں نے اطلاح بہم پہنچائی ہے۔ یہ تینوں صاحب دہلی کالج کے پروفیسر ہیں جہاں کا صدر یعنی پرنسپل بارہ سال سے ایک مشہور فرانسیسی فیلیکس بوترو (M. Felix Boutrus) ہے۔ صدر مذکور "ورنیکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی" (یعنی انجمن ترجمہ) کے بانیوں میں سے ہیں۔ اور اسی انجمن نے سنسکرت فارسی عربی اور انگریزی زبانوں سے ترجمے کر کے ہندوستانی زبان کی بڑی خدمت کی ہے۔ مذکورہ بالا اصحاب میں سے پہلا شخص رام چند ہے، جس کے عیسائی مذہب قبول کر لینے پر (اور کہا جاتا ہے کہ دہلی کا یہ پہلا ہندو ہے جس نے یہ مذہب اختیار کیا) اس سال کے ماہ جولائی میں بڑی سنسنی پیدا ہو گئی تھی۔ اس پنڈت کی عمر اس وقت 35 سال کی ہے۔ یہ شخص دہلی کالج کا پروفیسر بننے سے پہلے وہاں کا طالب علم تھا، اور اس کالج میں اس نے انگریزی سیکھی اور ہندوستانی اور فارسی ادبیات کی تعلیم پائی تھی۔ لیکن علم ریاضی کی طرف اس کا خاص رجحان تھا۔ وہ متعدد مفید کتابوں کا مؤلف ہے جو اس نے انگریزی سے ہندوستانی میں ترجمہ کی ہیں ان میں سے ایک الجبرا (جبر و مقابلہ) ہے جو Bridge and Eulek سے ماخوذ ہے۔ یہ کئی بار چھپا ہے۔ ایک کتاب علم مثلث تحلیلی پر ہے جس میں مخروطات بھی شامل ہیں؛ Analytical Trigonometry with Conic Section۔ اور ایک کتاب علم ہندسہ تحلیلی پر ہے جو Hutong Boucharial سے ماخوذ ہے۔ اس نے ایک کتاب علم الحساب پر لکھی ہے اور ان کے علاوہ کئی کتابیں ادب پر ہیں، یہ پروفیسر دو رسالوں کا اڈیٹر بھی ہے۔ ان میں سے ایک خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کا نام "محب ہند" ہے۔ یہ ایک ماہانہ پرچہ ہے جس میں اہل ہند کی تعلیمی حالت کے مناسب موقع اہم مسائل اور عام ادب یعنی ہندوستانی زبان کی ترقی پر مضامین لکھے جاتے ہیں۔ دوسرا شخص جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں رام کشن ہے۔ نہایت ذکی اور انگریزی ادب میں ایسا ہی قابل ہے جیسے رام چند۔ یہ کشمیری النسل اور دہلی کا رہنے والا ہے۔ اس کی عمر چالیس سال ہے۔ اس نے بہت سے مضامین انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیے ہیں جن کی عبارت نہایت فصیح اور شستہ ہے۔ چند ان میں سے یہ ہیں۔ دی پرنسپلس آف ہندو لا (اصول ہندو شاستر) مصنفہ سر ولیم میکناٹن (Sir W. McNaghten) کا ترجمہ، یہی وہ شخص ہے جو عربی میں الف لیلیٰ شائع کر رہا تھا۔ اور جو افغانوں اور انگریزوں کی گزشتہ لڑائی میں بہ مقام کابل مارا گیا۔ ترجمہ اصول حکومت (دی پرنسپلس آف گورنمنٹ، مؤلفہ نارٹن Norton) کے علاوہ بھی قانون پر اس کی کئی تالیفات ہیں۔ نیز دوسرے فنون پر بھی چند کتابیں لکھی ہیں مثلا فن زراعت پر، طب پر اور ایک انگریزی گرامر ہندوستانی زبان میں جس کے لکھنے میں اسے ڈاکٹر اسپرنگر (Sprenger) نے بھی مدد دی ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر اس وقت دہلی کالج کا پرنسپل تھا، آج کل فورٹ ولیم کالج میں ممتحن اور ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کا سیکرٹری ہے۔ ان میں سے تیسرا شخص کریم الدین ہے۔ یہ پانی پت کا رہنے والا اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے مسلمان ہے تقریباً 1812ء میں دہلی کالج میں بطور طالب علم شریک ہوا۔ آج کل اس کی عمر 59 سال کی ہے۔ اس کی تالیفات بہ کثرت ہیں اور تمام ہی نثر میں ہیں۔ بلکہ اس کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے کبھی کوئی نظم نہیں لکھی۔ اس نے بہت برا بھلا کہا کہ لوگوں نے ہندوستان میں شاعری کو پیشہ بنا لیا ہے۔ ان کی کتابوں میں بعض جدید تصانیف ہیں، بعض ترجمے اور بعض تالیفات۔ پہلی صنف میں حسب ذیل کتابیں ہیں۔ ایک کتاب عورتوں کی تعلیم پر ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے متعلق ہندوستان میں بہت غفلت برتی جاتی ہے۔ ایک کتاب ایشیا اور افریقہ کی مشہور عورتوں کی سوانحعمریوں پر، اور ایک کتاب علم عروض پر جو بہت مقبول ہوئی۔ دوسری صنف میں یہ کتابیں ہیں؛ ابوالفدا کی تاریخ کا ترجمہ، ہندوستانی شاعروں اور عرب شاعروں کا تذکرہ۔ تیسری صنف میں یہ کتابیں ہندوستانی (اردو) کے مستند اساتذہ کے کلام کا انتخاب۔ ایک کتاب فرائض وراثت پر جو اسلامی شریعت میں نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ علوم صحیحہ پر ایک مختصر رسالہ اور دلچسپ مقولوں اور لطیفوں کی ایک کتاب جس کا نام گلستان ہند ہے۔

1850ء کی طرح 1851ء میں بھی ہندوستانی مطابع صوبہ ہائے شمالی و مغربی میں برابر کام کرتے رہے۔ اس زمانے ہندی اور اردو اخبار جاری رہے اور بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ اس سال پھر میرے پاس بعض دوستوں کی عنایت سے نئے مطبوعات کی فہرست پہنچ گئی ہے۔ حضرات! میں آپ کے سامنے مبتدیوں کے استعمال کی کتابوں اور قدیم اساتذہ کی تصانیف یا مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کا جو دوبارہ چھپی ہیں، ذکر نہ کروں گا۔ اگرچہ اسلامی مذہبی کتب میں سے قرآن شریف مع اردو ترجمہ کے ایک دہلی کا اور دوسرا آگرے کا قابل لحاظ ہے۔ لیکن مذکورۂ ذیل کتابیں خاص طور پر قابل بیان ہیں۔ تاریخ آگرہ جو محمد سدید الدین نے اردو میں لکھی ہے۔ بہار عشق مؤلفۂ نور علی، یہ کتاب نل ڈن کے قصے پر مبنی ہے۔ قصہ گرو چیلا قصہ کلیلہ و دمنہ کے قصہ کی طرز پر لکھا گیا ہے۔

قصہ سپاہی زادہ، دیوان نوید ایک مشہور ہم عصر شاعر کا دیوان ہے۔ دیوان نظیر جو اب تک کامل نہیں چھپا تھا۔ گلستاں کا ہندوستانی ترجمہ جو پہلی مرتبہ فارسی متن کے ساتھ طبع ہوا ہے۔ ایک تاریخی نظم فاتحان ہندوستان پر مع انگریزی ترجمہ کے۔ یہ کتاب شہنشاہ دہلی کے حکم سے شاہی شاعر مہاراجہ پروا کرشن بہادر نے لکھی تھی۔ یہ شاعر اگرچہ ہندو ہے مگر بجائے ہندی میں لکھنے کے جو عام طور پر ہندوؤں کی زبان ہے، اس نے اردو میں لکھی۔ آخر میں ایک قصہ قابل بیان ہے جو علم النسل (Ethnology) کے نقطۂ نظر سے موجب دلچسپی ہے۔ اور ٹھیٹ ہندوستانی میں عربی اور فارسی کی آمیزش کے بغیر لکھا گیا ہے۔ اس کا لکھنے والا انشااللہ خاں ہے جو اسی صدی کی ابتدا میں ایک مشہور شاعر گزرا ہے۔ یہ قصہ ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے رسالے میں طبع ہوا ہے۔

ہندی کی صرف ذیل کی کتابوں کے بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔ اخلاقی مقولے موسوم بہ نیتی بنود (Niti-Binod) ہندو مہاجنوں کے لیے ایک کتاب جس کا نام مہاجنی سار دیپکا ہے۔ ہندی مطبوعات میں جن کی آئندہ ہونے والی اشاعت کی اس سال اطلاع دی گئی ہے، ویدوں کا کامل ترجمہ خاص طور پر قابل بیان ہے جس کے ساتھ اصل سنسکرت بھی ہو گی۔ اس کام کا بیڑا اس انجمن نے اٹھایا ہے جو شمالی ہند میں ہندو کتب مقدس کی اشاعت کے لیے قائم ہوئی ہے۔

حضرات! مجھے امید ہے کہ میرے لکچر ہندوستان کی جدید زبان کے علمی اور ادبی مطبوعات کے پڑھنے میں کافی طور پر رہنمائی کریں گے۔ میری تعلیم کا طریقہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، تجزیہ کے اصولوں پر مبنی ہے۔ میں ہر لفظ کی تشریح کرتا ہوں اور متن کے معنی و مطالب کے ساتھ ساتھ موقع بہ موقع نحوی قواعد پر بھی نظر ڈالتا جاتا ہوں اور ہر محاورے کا تجزیہ کرتا ہوں۔ میری دانست میں یہی ایک طریقہ حقیقی اور ٹھوس ترقی کرنے کا ہے۔

ہم اس سال شیر شاہ کی تاریخ کے اس حصے کو ختم کریں گے جو گزشتہ سال شروع کیا گیا تھا۔ شیر شاہ افغانوں کا کیخسرو (Xerexes) تھا جو اگرچہ ابتدا میں ایک گورنر کا بیٹا تھا مگر اپنی قابلیت، اپنے کردار کی توانائی اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ انصاف و عدل کی وجہ سے تخت دہلی پر قابض ہو گیا۔ ابھی وہ بہت کم عمر ہی تھا کہ اس کے والد نے اسے اپنے علاقے کے ایک حصے کا انتظام سپرد کیا۔ والد سے رخصت ہوتے وقت اس نے یہ الفاظ کہے "اباجان! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ سے اپنے دلی خیالات کا صاف صاف اظہار کروں۔ میری خواہش ہے کہ میں اس ملک کی زراعت کی ترقی میں کوشش کروں جس کو آپ نے میرے سپرد کیا ہے اور اس کی فلاح و بہبودی میں کوشاں رہوں۔ مگر میں اپنے مقصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام نہ لوں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ عدل اعلی ترین نیکی ہے۔ اس سے سلطنتوں کو وسعت اور استحکام حاصل ہوتا ہے اور اسی سے خزانہ مالامال اور شہر اور قصبے آباد اور خوشحال ہوتے ہیں۔ ظلم اس کے برعکس ہے اور بدترین عیوب میں سے ہے۔ یہ تباہی و بربادی کا موجب ہوتا ہے اور جو اس کا مرتکب ہوتا ہے وہ دنیا و عاقبت میں ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ پس ہر بادشاہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی رعایا سے مہربانی سے پیش آئے اور کن کی خبرگیری کرے کیونکہ خدا نے رعایا کو بادشاہوں کی پناہ میں دیا ہے جن کا فرض ہے کہ اس کو ظلم و استبداد سے بچائیں اور اس کو خوش رکھیں۔ اس کے حصول کے لیے کامل عدل اور اعلی انتظام ضروری ہے۔ عمدہ پولیس کے نہ ہونے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور رعایا کے حقوق تلف ہوتے ہیں۔ اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جو زندگی بخشتی ہے اور بغاوت کے گرد و غبار کو دبا دیتی ہے اور وہ اس تلوار کے مانند ہے جس کے جوہر کا عکس سلطنت کے رخسار پر پڑتا ہے اور اس کو مثل آفتاب کے منور کر دیتا ہے۔

"میں اس امر سے ناواقف نہیں ہوں کہ بعض عہدہ دار جو میرے ماتحت کام کے لیے تجویز کیے گئے ہیں، ظلم اور سختی کو جائز رکھتے ہیں۔ میں سب سے اول ان کو نرمی سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں اگر وہ میرے کہنے پر عمل کریں گے تو مجھے سختی نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر کچھ ایسے ہوں گے جن میں یہ خرابی اس درجے سرایت کیے ہوئے ہو کہ وہ ان سے نہیں چھوٹ سکتی تو میں سختی میں کوتاہی نہ کروں گا اور ان کو ایسی سزا دوں گا جو دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو گی۔ جب بدنظمی پھیلانے والے بدطینت لوگ اچھی پولیس کی آگ کو شعلہ زن دیکھتے ہیں جو چھپے رہتے ہیں۔ برخلاف اس کے جب انہیں ذرا سی بھی ڈھیل انتظام مملکت میں نظر آتی ہے تو ہر جگہ فساد پیدا کرتے ہیں اور حکومت کی عمارت بہت جلد شکستہ ہو جاتی ہے۔ حکیموں نے کہا ہے کہ مملکت مانند ایک درخت کے ہے جس کی جڑوں کی آبیاری ہمیشہ اچھے نظم و نسق سے کرنی چاہیے، تاکہ وہ امن و امان اور اطمینان کے ثمر سے بارآور ہو"۔

حضرات! میں اس سال پریم ساگر کی بھی تشریح کروں گا۔ پریم ساگر ایک کہانی ہے جو مسجع مقفیٰ عبارت میں لکھی گئی ہے اور جگہ جگہ اس نظم میں بھی آتی ہے۔ یہ کہانی کرشن جی کے حالات سے متعلق ہے اور بھاگوت کے دسویں باب پر مبنی ہے۔ اسی پران کے ترجمے اور طبع کا کام جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گا، ہندیات کے ایک مشہور عالم نے اپنے ہاتھ میں لیا تھا وہ اسی دسویں باب تک پہنچا تھا کہ موت نے علم و ادب کے اس سرمایۂ ناز کو ہم سے چھین لیا۔ لیکن ایک اور کتاب جو ہندوی ہندی نظم میں ہے اور اسی دسویں باب کے تتبع میں لکھی گئی ہے اور پریم ساگر سے بھی قدیم ہے۔ فرانسیسی زبان میں حال میں (M. Th. Pavie) موسیو تھامس پاوی نے طبع کرائی ہے۔ مجھے اس بات کا فخر ہے کہ موسیو موصوف میرے شاگردوں میں ہیں۔ اس کا کام 'کرشن جی اور ان کی تعلیم' ہے۔ اسے یوژین بورنوف (Eugene Bournouf) کی کتاب کا تتمہ یا تکملہ سمجھنا چاہیے۔

پریم ساگر ایک نہایت دلچسپ افسانہ ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام کی مقدس تاریخ سے ماخوذ ہے اس کے ہر صفحہ میں عیسائی مذہب کے واقعات کا مبہم سا اعادہ نظر آتا ہے لیکن اتنا فرق ہے کہ وہ سچ ہے اور یہ غلط ہے اسی لیے باوجود ایک دوسرے سے مشابہت کے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کرشن جی کی تاریخ اگرچہ مشرقی تخیل کے عجائبات سے پر ہے اور یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بت پرستانہ (Pagan) اخلاقی خرابیوں نے اسے خراب کر دیا ہے۔ تاہم عیسیٰ مسیح کی تاریخ سے اثر انداز مشابہت رکھتی ہے یہ وہ بات ہے جسے میں نے اپنی ایک تصنیف میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے چونکہ میں نے یہ تقابل و تقارب عمیق عیسائی جذبے کے تحت کیا ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ یہ مقابلہ عیسائیوں کے مذہبی احساسات کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گا بلکہ یہ کتاب محض دلچسپی کی جگہ ان کے لیے مسرت کا باعث بنے گی۔ مجھے یہ بات بہت دلچسپ معلوم ہوئی کہ کرشن جی کی زندگی کے حالات عیسیٰ مسیح کے حالات کی ایک دور دراز بازگشت ہیں اور ان کی تعلیم عیسائی مذہب کے اصول ہی کا ایک عکس ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عیسائی مذہب ہندوستان میں بہت پہلے سے آ چکا تھا جیسا کہ ہماری مذہبی روایتوں سے بھی ظاہر ہے۔ سینت فرانسوا زاویے (F. Xavier) جو پیرس یونیورسٹی کا مشہور طالب علم تھا اور انڈیز کے مبشر کے لقب سے مشہور ہے۔ جب جب کوچین اور تراونکور کے ساحلی قصبوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کے لیے پہنچا تو اس کو وہاں کچھ پیدائیشی عیسائی لوگ بھی موجود ملے، جن کو اس زمانے کے وقائع نویسوں نے پروا کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اسی نے مقام میلاپور (مدراس) میں سینت تھامس کی قبر بھی دیکھی۔ یہاں میں اس بات کا اشارہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ صوبوں بیجاپور میں جس کے بڑے شہروں میں گوا بھی ہے، سینٹ مذکورہ کو ہندوسستانی کی دکنی بولی میں وعظ کرنا پڑا ہو گا۔ یہ بولی بیجاپور میں اسی طرح مروج ہے جس طرح مرہٹی۔

رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی