خطبات گارساں دتاسی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

خطبات گارساں دتاسی

یوں تو 1913ء سے ہی رسالہ "اردو" کے ذریعے گارساں دتاسی کے خطبات کی اشاعت شروع ہو گئی تھی لیکن یہ پہلی بار کتابی شکل میں 1935ء میں شائع ہوئے۔ مقالات کی اشاعت 1943ء میں عمل میں آئی۔ قیام پاکستان کے بعد بابائے اردو مرحوم نے خطبات اور مقالات کے نئے ایڈیشن شهكححنائع ثکرنے کا کئی بار ارادہ کیا لیکن بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا۔

ڈاکٹر محمد حمید صاحب نے جو پیرس میں مقیم ہیں، بابائے اردو کو لکھا کہ انہوں نے گارساں دتاسی کے اصل مقالات کا (جو فرانسیسی زبان میں ہیں) اردو ترجمے سے مقابلہ کر کے یہ معلوم کیا ہے کہ اصل اور ترجمے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے ڈاکٹر صاحب موصوف سے درخواست کی کہ وہ مقالات و خطبات کے اردو ترجمے پر نظر ثانی فرما دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کام کو پورا کرنے کی ہامی بھر لی اور تقریبا چھ سات سال کی محنت کے بعد یہ کام مکمل کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کام کس قدر توجہ اور محنت سے کیا ہے اس کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ زیر نظر اشاعت کا سابقہ ایڈیشن سے مقابلہ کیا جائے۔ فاضل مترجمین نے ان گنت مقامات پر ترجمہ غلط کیا تھا یا بعض عبارتوں کو کسی نامعلوم وجہ سے ترک کر دیا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے جابجا ترجمے کی تصحیح کی ہے، متروک عبارتوں کا ترجمہ شامل کیا ہے۔ ناموں کے تلفّظ کو اصل کے مطابق لکھا ہے مختصر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب نے مقالات اور خطبات کا از سر نو ترجمہ کیا ہے، یہ کام ایسا عظیم الشّان ہے کہ اس کے لیے انجمن ترقی اردو ہی نہیں بلکہ پوری اردو دنیا ان کی ممنون ہو گی۔

ڈاکٹر صاحب برصغیر پاک و ہند کے چید اور اہل علم میں سے ہیں اور اسلامی ادبیات اور علوم مشرقی پر ان کی نظر بہت گہری ہے ان کے علمی کارنامے مشرق و مغرب میں یکساں طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اگرچہ انہوں نے پاکستان کو مکانی طور پر خیرباد کہہ دیا ہے لیکن اردو زبان سے ان کا جو گہرا تعلق ہے وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور اس کا ایک ثبوت زیر نظر کتاب ہے۔ جس کی نظر ثانی میں انہوں نے اپنے وقت عزیز وقت کا بہت سا حصہ صرف کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کی وقعت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ اس کا انہوں نے کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا۔ یہ ایک ایسا ایثار ہے جس کی مثال فی زمانہ ملنی مشکل ہے۔ خطبات و مقالات کی اولین اشاعتوں میں بابائے اردو کے بہت سے حواشی تھے، جن میں سے بعض موجودہ اشاعت سے حذف کر دیے گئے ہیں کیونکہ متن کی نظر ثانی کے بعد بعض مقامات سے وہ اغلاط رفع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے حواشی لکھے گئے تھے۔

بابائے اردو خطبات کے موجودہ اشاعتوں پر ایک طویل دیباچہ لکھنے کا خیال رکھتے تھے انہوں نے سابقہ اشاعتوں کی اغلاط کی خاص طور پر نشاندہی کرنے کا اعادہ کیا تھا لیکن؛

آن قدح بشکست و آں ساقی نماند

اب چالیس بعد ایک بار ہم پھر اسے چھاپ رہے ہیں۔ اردو تاریخ کے طالب علموں اور اس پر کام کرنے والوں کے لیے گارساں دتاسی ایک ناگزیر مطالعہ ہے۔ مگر اقتصادی طور پر ناشر کے لیے ایک مہنگاسودا ہے۔ خرچ کم از کم اتنا جتنا کسی ناول یا پاپولر کتاب پر آئے اور یافت کچھ بھی نہیں۔ کم بکتی ہے اور بہت دیر میں بکتی ہے۔ دوسرا ایڈیشن چھپ چکا ہے۔ پہلا ایڈیشن اس وقت آ رہا ہے جب ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اس پر لاگت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ بکنے میں نہ جانے کتنے برس لگیں۔ یہ سودا خسارے کا ہے، مگر ہمیں بہت عزیز ہے کیونکہ اردو پر نئے کام کرنے والوں کے لیے یہ اشاعت بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم سے ممکن ہوا ہم ایسے سودوں سے گریز نہیں کریں گے۔

جمیل الدین عالی

معتمد اعزازی، کراچی۔ 1947ء

مقدمہ[edit]

عرصہ ہوا جب سر سیّد راس مسعود (نواب مسعود جنگ بہادر) انگلستان تشریف لے گئے اور انڈیا آفس لائبریری میں کام کر رہے تھے تو حسن اتفاق سے فرانس کے مشہور مستشرق موسیو گارساں دتاسی کی یہ کتاب جس کا اصلی نام "ہندوستانی ادب از 1850ء تا 1877ء" ہے اور جو اب اردو میں "خطبات گارساں دتاسی" کے نام سے شائع کی جا رہی ہے، ان کی نظر پڑی۔ نواب صاحب موصوف دتاسی کے نام سے بہت پہلے سے واقف تھے کیونکہ وہ ان کے والد سید محمود کے دوست تھے، نیز انہوں نے سر سیّد مرحوم کی مشہور کتاب "آثار الصنادید" کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا۔ نواب صاحب فرماتے تھے کہ "جب میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو میرے دل کی کیفیت عجیب تھی اور اس خیال سے میری مسرت اور فخر کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ایک نامور عالم جو غیر ملک کا رہنے والا ہے، سالہا سال تک میری مادری زبان کے مطالعے اور عالمانہ تحقیق میں مصروف رہا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ہندوستان کے کسی بڑے سرکاری عہدے پر مامور تھا بلکہ اس لیے کہ بغیر کسی دنیاوی غرض کے محض علم کی خاطر اس زبان سے محبت کرتا تھا، اسی وقت سے انہوں نے یہ ٹھان لی کہ اس کتاب کا ترجمہ اردو میں ضرور ہونا چاہیے۔

جب وہ انگلستان سے حیدر آباد واپس آئے تو انہوں نے یہ کتاب مجھے دکھائی اور خود ترجمہ کرنے کا وعدہ کیا۔ ابتدائی چھ خطبے ترجمہ کر کے بھی دیے۔ پھر بعض مصروفیتوں کی وجہ سے وہ اس کام کے لیے بھی وقت نہ نکال سکے۔ اب مجھے کسی دوسرے مترجم کی تلاش ہوئی۔ تین خطبوں (ساتویں، آٹھویں، نویں) کا ترجمہ میں نے بجبر عبدالباسط صاحب بی۔اے سے کرایا جو بمبئی کے روزانہ اخبار بمبئی کرانیکل میں کام کرتے ہیں۔ ایک ایسے شخص سے جس کے ذمے روزانہ اخبار کی ترتیب ہو کسی دوسرے کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔ آخر ان سے بھی دست بردار ہونا پڑا۔ مصنف نے اپنی کتاب کے پانچویں خطبے میں کچھ اضافہ کر کے اسے "ہندوستانی مصنفین اور ان کی تصانیف" کے نام سے الگ کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔ میں نے پانچویں خطبے کے بجائے اس اضافہ شدہ مقالے کو اس کتاب میں درج کر دیا ہے۔ اس کا ترجمہ مسز پکتھال نے کیا۔ باقی تمام خطبوں کے ترجمے ڈاکٹر یوسف حسین خاں صاحب ڈی لٹ (پیرس) ریڈر عثمانیہ یونیورسٹی نے کیے جس کے لیے میں ان کا بہت شکرگزار ہوں۔

یوں تو ایسے مستشرقین کی اچھی خاصی تعداد ہے جنہوں نے اردو زبان کی قابل قدر خدمت کی ہے لیکن ان میں خاص کر دو ایسے گزرے ہیں جن کا اردو پر بڑا احسان ہے۔ ایک جان گلکرسٹ دوسرا گارساں دتاسی۔

گارساں دتاسی فرانس کی بندرگاہ مارسیل 1794ء میں پیدا ہوا۔ جیسا کہ خود اس نے ایک جگہ لکھا ہے وہ عام تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیرس پہنچا اور السنۂ شرقیہ کے پروفیسر سل دمتردی‏ساسی کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوا اور عربی اور ترکی زبان کا مطالعہ شروع کیا۔ جس طرح پروفیسر براؤن نے ترکی پڑھتے پڑھتے فارسی کی طرف توجہ کی کیونکہ بغیر فارسی کے علم کے ترکی کا مطالعہ کامل نہیں ہو سکتا، اسی طرح گارساں دتاسی نے عربی اور ترکی کے ساتھ فارسی کی تحصیل شروع کر دی۔ مشرقی السنہ کے شوق ہی نے اسے اردو کی طرف متوجہ کیا۔ آخر اس میں ایسا کمال حاصل کیا کہ پیرس کے السنۂ شرقیہ کے کالج میں ہندوستانی زبان کی پروفیسری میں ایک جدید خدمت قائم کی گئی اور اس پر گارساں دتاسی کا تقرر کیا گیا۔ پروفیسر اردو کی حیثیت سے انہوں نے بہت قابل قدر کام کیا، اور اردو کی تبلیغ و اشاعت اور حمایت کی جو خدمت سرانجام دی ہے وہ اردو زبان کی تاریخ میں ہمیشہ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ اس نے متعدد کتابوں کا اردو سے فرانسیسی میں ترجمہ کیا، کئی کتابیں اردو صرف و نحو اور اردو ادب و تاریخ پر تالیف کیں، بعض اردو کتابوں کو صحت اور محنت کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیا۔ ان سب کی تفصیل یہ ہے۔

ترجمے[edit]

میر کی مثنوی اژدر نامہ۔ تحسین الدین کی مثنوی کامروپ، گل بکاؤلی کا خلاصہ، مرثیۂ مسکین، سرسید کی آثار الصنادید، اقتباسات اخوان الصفا، نہال چند کی تاج الملوک و بکاؤلی (نثر) باغ و بہار (میر امن)۔

تالیفات[edit]

اردو زبان کے قواعد، ہندوستانی ادب کی تاریخ، خطبات سالانہ، ہندوستانی شاعر عورتیں، ہندوستانی مصنفین اور ان کی تصانیف، ہندوستانی، فرانسیسی و فرانسیسی ہندوستانی لغات کی نگرانی و امداد۔

ترتیب[edit]

کلیات ولی و مثنوی کامروپ یوں تو ان کی تمام ادبی خدمات لائق قدر ہیں لیکن ان کے تین کام ایسے ہیں جو خصوصیت کے ساتھ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک تو کلیات ولی کی ترتیب و اشاعت دوسرا تاریخ ادب ہندوستانی اور تیسرا سالانہ خطبات۔

کلیات ولی کے متعدد قلمی نسخے مختلف مقامات سے حاصل کر کے جمع کیے اور ان کا مقابلہ کر کے بڑی محنت سے ایک صحیح نسخہ مرتب کیا جو 1834ء میں شائع ہوا۔ تاریخ ادب ہندوستانی اس کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کے لیے گارساں دتاسی نے بڑا سامان جمع کیا اس زمانے میں پیرس میں بیٹھ کر اس قدر مطبوعہ اور قلمی نسخوں اور تذکروں کا فراہم کرنا اور معلومات بہم پہنچانا فی الواقع حیرت انگیز ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن رائل ایشیاٹک سوسائٹی برطانیہ عظی و آئرستان کی مجلس تراجم کے سلسلۂ مطبوعات میں شریک ہے۔ اسے مصنف نے ملکۂ معظمہ برطانیہ کے نام پر ان کی اجازت سے معنون کیا تھا۔ اس ایڈیشن کی پہلی جلد 1839ء میں اور دوسری 1846ء میں شائع ہوئی۔ اس درمیانی وقفہ میں بہت سا نیا مسالہ جمع ہو گیا جو بطور ضمیمہ شائع کیا گیا۔ مرور زمانہ سے جدید معلومات کا اور اضافہ ہوتا گیا۔ اور آخر 1870ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا جو تین جلدوں میں ہے۔ اس کتاب کی ترتیب قدیم تذکروں کے طرز پر ہے۔ یعنی بہ ترتیب حروف ابجد اردو اور ہندی مصنفین اور شعرا کا ذکر ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اس میں زیادہ تحقیق اور تنقید سے کام لیا گیا ہے اور مصنف نے اس امر کی کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو قدیم تذکروں اور کتابوں سے ہر مصنف کے معلومات جمع کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ایک بات جو ہمارے تذکروں میں مفقود ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہر مصنف یا شاعر کے کلام سے بعض ایسے نتائج اور معلومات اخذ کیے ہیں جن سے اس کی زندگی اور سیرت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب میں جا بجا غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس زمانے میں بہت سی ایسی معلومات ظہور میں نہیں آئی تھیں جو اس وقت ہماری دسترس میں ہیں۔ دوسرے آخر وہ غیر ملک کا شخص تھا اور کبھی ہندوستان آنے کا اسے اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس سے ہمارے ادب اور ہمارے معاملات کے سمجھنے میں کہیں کہیں غلطی کا سرزد ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب اس بات پر ہے کہ اس اجنبئ محض نے ہندوستان سے ہزار ہا میل کے فاصلے پر پیرس میں بیٹھ کر ہمارے ادبیات پر ایسی بے مثل اور عجیب کتاب لکھ ڈالی۔ آخر میں ان خطبات کے متعلق چند الفاظ لکھنا چاہتا ہوں جو اردو زبان کے قالب میں پہلی بار آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ انہیں بھی اردو ادب کی تاریخ کا جز سمجھنا چاہیے۔ بحیثیت پروفیسر کے گارساں دتاسی کا یہ قاعدہ تھا کہ وہ ہر سال کے آخر میں ایک لیکچر دیتا تھا جس میں وہ اس سال کے ادبی ارتقاء پر تبصرہ کرتا تھا یعنی اس سال ہندوستانی اور ہندی میں کون کون سی کتابیں شا‏ئع ہوئیں، کون کون سے نئے اخبار یا رسالے جاری ہوئے، کتنے جدید مطبع ہوئے، کن کن مصنفین نے ادب میں اضافہ کیا۔ یہ تمام معلومات وہ مختلف ذرائع سے اور خصوصاً ہندوستان کے عہدہ داروں کے توسط سے بذریعۂ خط و کتابت برابر حاصل کرتا رہتا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ ہر کتاب اور اخبار اور رسالے کی حقیقت اور قدر و قیمت بھی بیان کرتا جاتا ہے اور مصنفین کے حالات اور مساعی کا بھی ذکر کرتا ہے۔ مختلف ادبی مباحث کے ضمن میں وہ بعض اوقات ملک کے سیاسی اور معاشرتی حالات کا تذکرہ بھی خاص انداز سے کر جاتا ہے۔ ان میں ہمیں بعض باتیں ایسی نظر آئیں گی جن سے اس وقت کی دوسری کتابیں اور تاریخیں خالی ہیں۔ ان خطبات میں کہیں کہیں ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں جنہیں پڑھ کر تعجب ہوتا ہے لیکن ان خفیف اسقام سے کتاب کی عظمت اور اہمیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔

ان خطبوں کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے۔ وہ اسے ہندوستان کی ترقی پذیر اور عام زبان خیال کرتا ہے اور ہر موقع پر ہندی کے مقابلے میں اس کی حمایت کرتا ہے اور اس کے فروغ اور ترقی کا دل سے خواہاں ہے ایک دوسری بات یہ مترشح ہوتی ہے کہ وہ پکا عیسائی ہے اور عیسائی مبلغین کی کوششوں کو بڑے شوق سے بیان کرتا ہے اور عیسائی مذہب کی اشاعت کا متمنی ہے۔ تیسری بات جو وہ صاف صاف کہتا ہے یہ کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت باعث برکت و خیر ہے۔

یہ خطبے 3 دسمبر 1850ء سے شروع ہوئے اور 6 دسمبر 1869ء تک باستثنا 58ء کے جسے 57ء کی شورش کا نتیجہ سمجھنا چاہیے، برابر جاری رہے۔ یہ انیس برس کی مسلسل کاوش کا نتیجہ ہیں۔ بقول نواب مسعود جنگ بہادر کے تاریخی نقطۂ نظر سے بھی اس کتاب کا مطالعہ دلچسپ ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 1850ء سے لے کر 1869ء تک یعنی 19 سال کے عرصے میں ہمارے زبان و ادب میں کن اصولوں پر کام انجام پایا۔ نیرنگئ تقدیر دیکھیے کہ آج ہمیں اپنی زبان کی تدریجی ترقی کے حالات کے لیے ایک فرانسیسی سے رجوع کرنا پڑتا ہے جس نے 81 سال قبل اس طرف توجہ کی تھی۔ ہماری ادبی تاریخ میں جو کمی نظر آتی ہے وہ اس ترجمے سے بہت کچھ پوری ہو جائے گی۔ گارساں دتاسی بلاشبہ بڑا آدمی تھا۔ اس نے عمر بھی بڑی پائی۔ 84 برس کی عمر میں 1874ء میں انتقال کیا۔ وہ عمر بھر علمی مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہا۔ ہندوستانی زبان سے اس کا شغف عشق کے درجے تک پہنچ گیا تھا۔ اس کا کارنامہ اس قدر وقیع ہے کہ وہ ہماری زبان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ایک لمحہ کے لیے سوچیے اور دیکھیے کہ یہ منظر کس قدر عجیب اور دلچسپ ہے کہ ایک بوڑھا فرانسیسی عالم ہندوستان سے کالے کوسوں دور پیرس کی یونیورسٹی میں اپنے یورپین شاگردوں کو (جن میں فرانسیسیوں کے علاوہ دوسری قوم کے لوگ بھی شریک ہیں) ہندوستانی زبان پر بڑے جوش و خروش سے لکچر دے رہا ہے اور ان کے دلوں میں اس غریب زبان کا شوق پیدا کر رہا ہے۔ اپنی فرصت کا تمام وقت اسی زبان کی تحقیق میں صرف کرتا ہے۔ اہل زبان اور غیر اہل زبان دونوں سے خط و کتابت کرتا ہے، ایک ایک کتاب ایک ایک اخبار اور رسالے کا حال پوچھتا ہے۔ قلمی نسخوں کی نقلیں منگواتا ہے، ان کی تصحیح کرتا ہے، مرتب کر کے چھپواتا ہے خود اس زبان کی تصانیف کا ذخیرہ جمع کرتا ہے اور ہندوستانی ادب کے مختلف شعبوں پر بحث کرتا ہے اور اس کی مفصل اور مبسوط تاریخ لکھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کے بڑے ہونے کی کیا علامت ہو سکتی ہے اردو زبان والے اس کا جس قدر احسان مانیں کم ہے۔ ان خطبات میں جہاں جہاں فاضل مصنف سے کوئی لغزش یا فروگزاشت ہو گئی تھی اس کی تصحیح و تکمیل میں نے حاشیے میں کر دی ہے۔ میں آخر میں اپنے قابل شاگرد شیخ چاند صاحب ایم۔اے، ایل۔ایل۔بی، ری‏سرچ سکالر (عثمانیہ) کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے طبع کے وقت پروف پڑھنے اور ان کی تصحیح کا کام بڑی محنت سے سرانجام دیا اس کے علاوہ متن کے بعض مقامات پر جو میری نظر سے رہ گئے تھے، انہوں نے مفید حاشیوں کا بھی اضافہ کیا۔

عبدالحق

28 اگست 1935ء

سیف آباد۔ حیدرآباد دکن


فہرست خطبات[edit]

پہلا خطبہ، 3 دسمبر 1850ء[edit]

  • ہندوستانی زبان کے عملی فائدے اور اس کی ادبی اہمیت

دوسرا خطبہ، 4 دسمبر 1851ء[edit]

  • ہندوستانی کی اصل
  • ہندوستانی کی شاخیں، ہندوی اور اسلامی
  • چند ادبی کتابیں، ترجمۂ سنسکرت، دیوان ولی، مہر و ماہ کلجگ
  • ہندوستانی کے رسم خط
  • بیت کی وجہ تسمیہ، عربی عروض، اردو اور دکھنی بحریں، ہندوی عروض، ہندی اور اردو نظم میں قافیہ
  • مختلف شہروں میں مطابع کی ترقی
  • ادبی اور فلسفیانہ دلچسپی کی کتابیں، قرآن پاک، ایک نعت، رد فرقۂ وہابی رسائل بر جین مت، نظیر اکبر آبادی کی نظمیں، سوانح عمری علی حزیں، تاریخ پنجاب، تاریخ خاندان سندھیا، نظم لخت جگر
  • مشاعرہ
  • دو بادشاہ شاعر، ظفر و اختر

تیسرا خطبہ، 5 دسبر 1852ء[edit]

  • ہندوستانی، ہندوستانیں، ہندی، ہندوی کی تشریح
  • ہندوستانی زبان کی تاریخ کا ضمنی تذکرہ
  • دہلی کالج کے تین مصنف پروفیسر، رام چندر، رام کشن، کریم الدین پانی پتی اور ان تینوں کی تصانیف
  • 1851ء میں مطابع کی حالت
  • چند قابل ذکر مطبوعہ کتابیں
  • صاحب خطبات کا طریقۂ تعلیم بر سبیل تذکرہ
  • تاریخ شیر شاہ
  • پریم ساگر، اس کا مآخذ، ترجمہ، اس میں سری کرشن کی سیرت و تعلیمات، عیسی کی سیرت وتعلیمات کی صدائے بازگشت، تبلیغ عیسائیت، سینٹ تھامس دکھنی میں وعظ کرتا تھا۔

چوتھا خطبہ، 29 نومبر 1853ء[edit]

  • ہندوستانی بول چال سے گزر کر ادب میں داخل ہو رہی ہے۔
  • مطابع و اخبارات کی ترقی مختلف شہروں میں۔
  • ہندوستانی تصانیف و تالیفات، رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی مطبوعات۔
  • بعض ہندوستانی جو عیسائی ہو گئے، رام چندر اور ایک سکھ شہزادہ۔
  • ہندوستانی مطبوعات کی تعداد، ہندی، اردو کتب، شرح راماین، نجات ام المومنین، حاتم طائی منظوم، ہندی لغت، مرتبہ تعشق۔
  • اردو مطبوعات، قصۂ منصور، مجموعہ مثنوی حکایت آمیز، نظم نادر، گلستان مسرت، ترجمہ مقامات حریری، قصۂ دھرم سنگھ، شرح مثنوی بو علی قلندر، بہارستان سخن، میزان عقبی۔
  • پنجاب میں ایک سال کا ترجمہ۔
  • مطبوعہ جغرافی نقشے۔
  • ہندوستانی انتخابات مرتبہ شیکسپیئر جو مصنف پڑھاتا تھا، اس کی بجائے طوطا کہانی اور باغ و بہار داخل نصاب ہوئے، ان کتابوں کا طرز تحریر۔
  • طوطا کہانی اور باغ و بہار کا ایک اقتباس، خلاصہ، اس کتاب کی خصوصیات۔

پانچواں خطبہ، 4 دسمبر 1854ء[edit]

  • ہندوستانی زبان کی اصل و مآخذ، سنسکرت، پراکرت، بھاشا۔
  • اسلامی فتوحات سے بھاکا میں تغیر۔
  • دھرمی ہند اسلامی زبان یعنی اردو اور دکھنی۔
  • ہندوستان کی تفریق (یعنی اردو اور ہندی) کی وجہ۔
  • اردو کے ہندو مصنفوں اور مؤلفوں نے اسلامی طرز اور تخیلات کو اخذ و جذب کیا۔
  • ہندی نظمیں، اردو دکھنی کے مقابلے میں پرزور ہیں، سنسکرت اور فارسی کو بے دخل کر کے مشہور ہندوستانی تصانیف نے ہندوستانی زبان کی ایک حالت قائم کر دی۔
  • سرسیّد کا ایک اقتباس دربار تاریخ زبان اردو۔
  • ولی سے قبل کے شعرا کی زبان۔
  • حاتم کا ایک اقتباس دربارۂ اختیار زبان۔
  • سرسیّد کے بیان پر تنقید اور اس کا موازنہ میر امن کے بیان سے۔
  • مسعود بن سلمان سعدی خسرو اور نوری کی ریختہ گوئی۔
  • دکھن میں ریختہ کے اشعار بزبان دکھنی، وہاں کے چند نامور شعراء کے نام۔
  • شمالی ہند میں ولی کی تقلید سے شاعری کا آغاز۔
  • مصنف کو اردو زبان کی تاریخ کا شوق کیوں پیدا ہوا اور اس نے اپنی تاریخ کیونکر لکھی۔
  • تذکروں کی فراہمی۔
  • ایرانی اور ہندوستانی تذکرہ نگاری کی حالت۔
  • ہندوستانی تذکروں کے دو نمونے، ذکر حاتم وذکر ابوالحسن تانا شاہ از گلشن ہند۔
  • اردو اور دکھنی کا مقابلہ۔
  • ہندی شعرا کے تذکرے یعنی کب مالا، بھگت مالا۔
  • بھگت چرتر، راگ کلپادرم۔
  • سجان چرتر، کوی چرتر۔
  • اردو تذکرہ، نکات الشعراء۔
  • تذکرۂ قائم، تذکرۂ گردیزی۔
  • مخزن نکات۔
  • مسرت افزا۔
  • تذکرۂ شورش۔
  • تذکرۂ گلزار ابراہیم۔
  • تذکرۂ مصحفی۔
  • تذکرۂ لطف۔
  • مجموعۂ انتخاب۔
  • مجموعۂ نغز۔
  • عمدۂ منتخبہ۔
  • طبقات سخن۔
  • تذکرہ جہاں۔
  • عیار الشعرا۔
  • گلشن بیخار۔
  • گلشن بے خزاں۔
  • گلدستۂ نازنیناں۔
  • تذکرۂ ناصر لکھنوی۔
  • گلستان سخن نام کے تین تذکرے مؤلفات۔
  • صابر، جوش، مبتلا۔
  • انتخاب دواوین شعرائے مشہور زبان اردو کا، مولفہ صہبائی۔
  • صحف ابراہیم۔
  • سراپا سخن۔
  • طبقات الشعراء (تذکرۂ شعرائے ہند)۔
  • آغاز اردو منتخبات: تین مجموعے اور ان کی حالت۔
  • گلدستۂ نشاط۔
  • مجموعۂ واسوخت۔
  • ہندوستانی شعرا کے ان تذکروں کا ذکر جن کے نام پر تذکروں میں مصنف کو ملے ہیں: کوی پرکاش، وارتا؛ نظمہائے دلہا رام۔
  • تذکرۂ حسن، تذکرۂ سودا۔
  • گلزار مضامین، گلدستۂ حیدری، تذکرہ میر محمد علی ترمذی، روضۃ الشعراء، تذکرۂ اختر۔
  • تذکرۂ آزردہ، تذکرۂ عاشق۔
  • سرو آزاد۔
  • تذکرۂ کاملین، تذکرۂ محمود، تذکرۂ مضمون (امام الدین خاں)۔
  • تذکرۂ ذوق، تذکرۂ جہاندار۔
  • تذکرۂ امام بخش کشمیری، تذکرۃ النسا۔
  • مختصر احوال مصنفین ہندی کے تذکروں کا، تذکرۃ الحکما، تذکرۃ المفسرین، تذکرۃ المشاہیر۔
  • وہ انتخابات جن کا علم تذکروں کے ذریعے ہوا، بھاولاس، نو رتن، کویا سنگرھا، کبی بچن سدھا۔
  • انتخاب مشتاق (تاج الدین) انتخاب مشتاق (محمد قلی)، چمن بے نظیر۔
  • مجموعۂ دواوین، مجالس رنگین، گلستان مسرت، گلدستۂ ہند، معیار الشعراء، مجموعۂ انتخاب مقبول نبی خاں۔
  • دو فہرست کتب، قلمی فہرست فارسی و ہندوستانی مرتبہ علی احمد، فہرست ایشیاٹک سوسائٹی بنگال۔
  • وہ مصنفین جن کا ذکر اصل تذکروں میں ہے۔ ان کی تعداد و حیثیت۔
  • ہندوستانی ادبیات میں، شاعری، شاعری سے مصنف کی مراد اور اس کی قسمیں۔
  • بعض شعرا اردو و فارسی دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔
  • مصنفین کی گروہ بندی، پہلی تقسیم بلحاظ مذہب، مسلمانوں نے ہندی میں بہت کم لکھا، ہندوؤں نے ناصرف اردو، دکھنی بلکہ فارسی میں بھی لکھا۔
  • ہندی کے شاعروں کے تذکرے دستیاب نہیں ہوتے، اردو گو شعرا کے تذکرے موجود ہیں۔ اس لیے ہندی گو شعرا کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکتی۔
  • ہندی میں لکھنے والے کہاں کہاں ہیں۔
  • ٹھیٹ دکھنی لکھنے والوں کی تعداد دو سو ہے۔
  • دکھن کے شہر۔
  • اردو کے مرکز۔
  • ہندو مسلمانوں کے ناموں کی تمیز، ہندوستانی مسلمان شعرا کے ناموں کی چھ صورتیں۔
  • ہندو مسلمانوں کے نام کن اصولوں پر رکھے جاتے ہیں، اس کی تفصیل۔
  • ہندو فرقوں کے افراد کے ناموں کے ساتھ اعزازی الفاظ۔
  • ہندوستانی مسلمانوں کی تفریق ذات۔
  • ہندو القاب شری، دیو، گال اور روسی قوموں میں ان القاب کی مماثلت۔
  • درباری شعرا کے خطابات۔
  • ہندو فارسی تخلص استعمال کرتے ہیں۔
  • بعض ہندو شاعر جو مسلمان ہو گئے ہیں، مسلمان ہونا بمقابلہ ہندو رہنے کے ترقی کرنا ہے۔
  • ہندو مسلمان جو عیسائی ہو گئے ہیں، ان کی تبدیلئ اسما کی نوعیت۔
  • شعرا جو اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو گئے۔
  • یورپی عیسائی جو اردو کے شاعر ہیں۔
  • ایک حبشی جو اردو کا شاعر تھا۔
  • ہندی کے شعرا مذہبی تفریقوں کے لحاظ سے۔
  • سنی، شیعہ۔
  • وہابی۔
  • بادشاہ شاعر۔
  • شاعر عورتیں۔
  • ہندو مسلمان شاعروں کی تقسیم بلحاظ زمانہ، گیارہویں صدی، مسعود سعد، 12ویں صدی چند اور پیپا، 13ویں صدی سعدی، بجا باورا، 14ویں صدی خسرو، نوری۔
  • ان کے سوا اور شعرا جن کی تصانیف موجود ہیں۔
  • 15ویں صدی کبیر، گوپال داس، دھرم داس، نانک، بھگوداس، لالچ۔
  • 16ویں صدی۔ سکھ دیو، نابھا جی، ولبھا، دادو، بہاری۔
  • ابوالفضل، افضل، محمد قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ۔
  • 14ویں صدی، سورداس، تلسی داس، کیشو داس۔
  • حاتم، آزاد، جواں۔
  • ولی، احمد گجراتی، تانا شاہ، شاہی، مرزا ابوالقاسم، ابن نشاطی، غواصی، محقق رستمی۔
  • 18ویں صدی کے ہندو مصنفین گنپتی، بیربہان، رام چرن، شیونرائن۔
  • اردو شعراء سودا، میر، حسن۔
  • جرات، آرزو، درد، یقین، فغاں، امجد دہلوی، امین الدین بنارسی، عاشق۔
  • دکھنی شعراء، حیدر ابجدی، سراج، 19ویں صدی ہندی مصنفین، بھگت دو، دلھا رام، چتر داس۔
  • اردو گو، مومن، نصیر، آتش، مول چند، ممنون۔
  • دکھنی، کمال، عبدالحق۔
  • شاعروں کی تقسیم بلحاظ تذکرہ نگاری۔
  • تصنیفات جن کا ذکر تذکروں میں ہے، اصناف سخن، غزل، مثنوی و دیگر اصناف۔
  • اردو اور ہندی شاعری کے موضوعات عشق۔
  • اردو کی بحریں۔
  • تدوین کلام۔
  • حسن ازل اور حسن مخلوق میں گڈمڈ۔
  • چند نظموں کا ذکر۔
  • جن کا ترجمہ مصنف نے کیا۔
  • ان نظموں پر رائے، غزلوں میں صنعت ایہام کا عیب۔
  • شہرت دیوان ولی۔ مقبولیت سودا، میر درد، جرات، یقین۔
  • آتش، ذوق، نظیر کے دیوان۔
  • فردیات۔
  • نوحہ، عیدی، معما، مقطعات، نعت، سالگرہ، واسوخت، زٹلیات۔
  • نسبتیں۔
  • چوپائی، دوھا، گن۔
  • مکری۔
  • کوک شاستر۔
  • مثنویاں، خمسے، ہفتے۔
  • فارسی قصوں کے اردو ترجموں کی نوعیت۔
  • آرائش محفل، یوسف زلیخا، لیلی مجنون کے مختلف ترجمے۔
  • بہرام گور اور قصہ سکندر کے مختلف نسخے۔
  • قصۂ حاتم داستان امیر حمزہ، قصہ حنیف۔
  • تاریخ ہرمز۔
  • شکنتلا کے ترجمے۔
  • پدماوت کے ترجمے۔
  • کرشن کی تاریخ، راماین۔
  • کامروپ، گل بکاؤلی۔
  • ہیر رانجھا، سسی پنو، پھول بن۔
  • گل و صنوبر، چہار درویش، گروبرم ارتھم، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، طوطا کہانی، خاور نامہ، قصۂ بلند اختر۔
  • اخوان شاہ، چندر بدن مہیار، دلارام و دلربا پری رخ و ماہ سیما، فسانۂ عجائب اور اس قسم کے قصوں کے ترجمے اور خلاصے جو مصنف نے کیے۔
  • نظم کی بعض اور قسمیں، بارہ ماسہ، پھول جرتر۔
  • مسلمانوں میں نظم کی ایک خاص قسم۔ مثلا کشف الاسرار، منطق الطیر، اخوان الصفاء۔
  • پنچ تنتر۔
  • ناٹک، یوسف زلیخا، محرم کے تعزیے، ہولی، ہنومان کا ناٹک۔
  • انشا، فیض، خالق، نظام الدین (پونے والے) چرنجی لال، یوسف دکھنی اور ہر کرن کی انشائیں۔
  • لسانیات کی کتابیں، مفتاح اللغت، مصدر للفاضل، لغت اردو، مصدر فیوض اردو ترجمہ، میزان فارسی، مظہر نحو، ایک اور اردو لغت، لغت السعید، اردو لغت مطبوعہ آگرہ، تالیفات صہبائی، بھاشا پنگل۔
  • انگریزی صرف و نحو پر ہندوستانی کتابیں، تاریخ چند، چترا پرکاش، تاریخ گوالیار، راج ولاس، ہمیر راسا، ہری چندر لیلا، سورج پرکاش منظوم حالات راجا مارواڑ۔ گرب چنتا منی، تاریخ میواڑ، رشابھا چرتر، بنس کلی کلپاورم، پوتھی محمد شاہ۔ اردو تاریخی کتابیں، آثار الصنادید، تاریخ آگرہ، علی نامہ، واقعات گورکھا، نظم بر سومناتھ پٹن، حکومت بنگال، تاریخ خاندان سندھیا۔
  • خودنوشت سوانح، تیمور بابر، اکبر اور جہانگیر کے توزکوں کے ترجمے، پتمبر داس، موہن داس، موہن لال، علی حسین وغیرہ کے خود نوشت سوانح۔
  • سفرنامے، سفرنامہ یوسف خاں لکھنوی، سفرنامہ لندن کریم الدین خاں نیز اس کا ترجمہ از مصنف، مذہبی فلسفہ، مہادیو چرتر، شولیلا مرتم، گورا منگل وغیرہ، نیز مسلمانوں کے مذہبی فلسفہ کی کتابیں۔
  • مذہبی قانون۔
  • سائنس و دیگر علوم و فنون۔
  • سنگ تراشی و طبی نباتات پر کتابیں، فن شاہین و شہباز، فن بیطاری، موتیوں کا وزن و قیمت، شطرنج بازی، تعبیر خواب، طباخی، وغیرہ پر کتابیں۔
  • مشرقی زبانوں کے ترجمے ہندوستانی میں۔ ویدوں شہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم قرآن، ایک اور ترجمۂ قرآن، ترجمۂ راماین، وغیرہ۔
  • تامل بنگالی اور مرہٹی کے ترجمے۔
  • عربی کتابوں کے ترجمے: ابوالفدا، ابن خلکان، اخوان الصفا، مشکوۃ شریف، ادب القاضی کے ترجمے، مقامات حریری کا ترجمہ نیز اس کا ترجمہ از مصنف، الف لیلہ کے ترجمے از حسن علی خاں، شمس الدین احمد (مدراس) نسیم، وغیرہ۔
  • ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کے تراجم جغرافیہ ابوالفدا، تاریخ مغلاں رشید الدین، تاریخ ابن خلدون وغیرہ۔ فارسی کے ترجمے تراجم گلستاں، ترجمۂ بوستان سعدی از مغل، منظوم ترجمۂ خلاصۂ شاہنامہ از منشی، شاہ نامے کے دو نثری ترجمے، ترجمۂ قصۂ سہراب، ترجمہ مثنوی شریف، تراجم پندنامۂ عطار، پندنامۂ سعدی، منطق الطیر، حسن و عشق، بہار دانش، تاریخ کشمیر۔
  • ترجمۂ تاریخ طبری۔
  • تراجم کتب ہندی وغیرہ؛ سنسکرت ترجمۂ ست سئی، ارمنی ترجمۂ باغ و بہار، فارسی ترجمہ راگ درشن۔
  • ترجم کتب اردو؛ قصۂ دھرم سنگھ اور سراج پور کی کہانی کے فارسی ترجمے۔
  • ترجمۂ تاریخ فلوری، ترجمۂ صرف و نحو عربی مؤلفہ دی ساسی۔
  • مغربی زبانوں کے فواید۔
  • مذہبی کتب؛ قرآن پاک کا الہ آبادی اڈیشن۔
  • ترجمۂ انگلیکن لٹرجی
  • سنگی مطابع کا فائدہ۔
  • چند مطابع کی تاریخ اور ان کے مطبوعات۔
  • ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کا کارنامۂ لیتھوگرافی۔
  • اخبارات و رسائل کا آغاز اور ان کی ترقی۔

چھٹا خطبہ، 2 دسمبر 1855ء[edit]

  • خطبہ کا موضوع: ہندوستانی ادب کی تحریک ترقی۔
  • صوبجات مغربی و شمالی کے چھاپہ خانے اور اخبار۔
  • اخبار جو بند ہو گئے۔
  • صوبجات شمالی و مغربی کے شہروں میں چھاپہ خانوں کی تعداد۔
  • نئے اخبار، نورالاخبار، بدھی پرکاش۔
  • آفتاب ہند، فتح الاخبار۔
  • صادق الاخبار، نور مشرقی، نور مغربی، سرکاری اخبار گوالیار۔
  • شعاع شمس چشمۂ فیض۔
  • صوبجات مغربی وشمالی کی ادبی تاریخی فلسفیانہ کتابیں، چراغ حقیقت، تذکرۃ التمکین، عجائب روزگار، مخزن قدرت خیالات الصانعی۔
  • ترجمہ قوانین منو، ترجمۂ قدوری، بھوت نہنگ مصنفہ رام چندر۔
  • اخلاقی ناول، سندھی کبدھی، بنجارا۔
  • ترجمۂ تاریخ کشمیر، تاریخ فقہائے اسلام، سفرنامۂ یورپ، سیاحت فرمانروائے اندور۔
  • تصانیف صہبائی، حدیقۃ البلاغت، قواعد اردو۔
  • 56ء کی چند مطبوعات؛ ترجمہ کرشن بالپن، ترجمہ لیلی مجنوں، سفینۂ ظرافت، شرح قصائد سودا، دیوان درد، راماین خلاصۂ انوار سہیلی۔
  • ایک انگریز حاکم کی حقارت آمیز رائے دربارۂ باغ و بہار، گل بکاؤلی، اخلاق جلالی، زبدۃ الخیال، پریم ساگر، ست سئی، راج نتی۔
  • انگریزی کتابوں کے ہندوستانی ترجمے اور ان کی حیثیت، مترجمین، مذہبی کتابوں کے ہندو مترجمین، حکومت کا مقصد ان تراجم سے وغیرہ۔

ساتواں خطبہ، 4 دسمبر 1856ء[edit]

  • تمہید، معزولی واجد علی شاہ۔
  • موضوع خطبہ؛ ہندوستان کی ادبی تحریک بذریعہ ہندوستانی۔
  • ہندوستانی کی اصل اور اس سے مراد اور اس کے مرکز۔
  • ہندوستانی کا رسم خط۔
  • ممالک مغربی و شمالی اور پنجاب میں مطابع و رسائل کی تعداد۔
  • اخبار کوہ نور۔
  • اخبار و رسائل کی اشاعت۔
  • مطابع کی مطبوعات کی تعداد۔
  • دہلی میں شائع شدہ کتابیں، ان کی اشاعت کا مقصد۔
  • تذکرۂ گلستان سخن۔
  • گیان چالیسی، پشب باٹیکا (ترجمۂ باب ہشتم گلستاں) گلستاں اردو، ترجمہ اقتباسات بوستاں۔
  • فلسفیانہ و اخلاقی کتابیں۔
  • اخلاقی قصے۔
  • تاریخی کتابیں۔
  • عروض کی کتابیں۔
  • صرف و نحو کی کتابیں۔
  • فن انشا کی کتابیں۔
  • فن ذراعت کی کتابیں۔
  • مصنف کی کتابوں کے اردو ترجمے۔
  • دیسی مدارس کے لیے کتابیں۔
  • عیسائی مبلغین۔

آٹھواں خطبہ، 10 دسمبر 1857ء[edit]

  • تمہید؛ غدر کا اثر ہندوستانی ادبی تحریک پر۔
  • بغاوت کے مذہبی اسباب اور اس کی تردید۔
  • غدر کا مختصر حال۔
  • بہادر شاہ ظفر کا تذکرہ۔
  • تذکرۂ دہلی۔
  • غدر کے بانی اور بعض وفادار والیان ریاست۔
  • بعض ہمدرد ہندوستانی۔
  • ہنگامۂ غدر میں بعض لائق اشخاص کا کام آنا۔
  • اسی زمانے میں بعض دیگر اہل علم کا دنیا سے چل بسنا۔
  • رسالۂ ناساؤلیس در حمایت السنۂ مشرقیہ۔
  • انگریزوں کی خدمات دربارۂ علوم مشرقیہ۔
  • غدر کے بعد ہندوستانیوں کے شعر و سخن کی طرف متوجہ ہونے کی امید۔

نواں خطبہ، 5 مئی 1859ء[edit]

  • تمہید؛ ہنگامۂ غدر کے بعد سکون، اہل ہند کی حکومت انگریزی سے تعاون کی امید، اہل ہند کی اپنے ملک سے الفت، اس کی چند تحریری مثالیں۔
  • وکٹوریہ کا اعلان اور ہندوستانی حکومت کی تنظیم۔
  • ہیلسبری کے ایسٹ انڈیا کالج کی تاریخ اور مسدودی۔
  • غدر کے بعد ادبی تحریک کا از سر نو آغاز۔
  • چند مطبوعات متعلق غدر۔
  • اخبار بامداد۔
  • رسالے جو غدر کی وجہ سے بند ہو گئے۔ خیرخواہ ہند۔
  • تعداد مطبوعات پنجاب بعض مطبوعات کے نام اور اخبار کوہ نور۔
  • بہادر شاہ ظفر بعد معزولی۔
  • تعلیمی کتابیں۔
  • رومن حروف میں ہندوستانی کتابیں۔
  • رومن رسم خط پر بحث۔
  • انگریزی حکومت کے ہندوستانی ادب پر کیا اثرات پڑیں گے۔
  • رومن رسم خط ہندوستانی کے لیے مفید ہے۔
  • انجمن عیسائیان ہند برائے تعلیم السنۂ ملکی۔
  • عیسائیوں کا رومن رسم خط کی ترویج کرنا۔
  • کتابیں جو اس رسم خط میں شائع ہوئیں۔
  • ہندوستانی اور رسم خط کا مقابلہ اور آخر الذکر کا مختصر تذکرہ۔
  • لاطینی حروف کا مخالف جان شیکسپیئر اور اس کے حالات۔

دسواں خطبہ، 7 فروری 1861ء[edit]

  • تمہید؛ غدر کے بعد ہندوستانی ادب کی تحریک کا تیزی سے آغاز۔
  • منظور الاخبار سورت۔
  • اجمیر سے فیلن کا ایک اخبار جاری کرنا اور وہاں ایک مطبع قائم کرنا۔
  • رسالۂ مفید خلائق آگرہ، اخبار طبابت پشاور۔
  • نئی تصانیف؛ تاریخ بغاوت ہند۔
  • وفادار ہندی مسلمان کی سرگزشت، رسیدان شہ، کتاب بر عہد ویدانت۔
  • رسالہ درباب کاشت نیل۔
  • کتب شائع کردہ ناظم تعلیمات صوبۂ شمال مغربی۔
  • تالیفات فیلن۔
  • مسٹر ہال کی شائع شدہ سنگھاسن بتیسی اور ان کی مؤلفہ ادب ہندی کی تاریخ۔
  • لغات و اصطلاحات کی کتابیں۔
  • ایک بزم موسیقی کا ذکر۔
  • بیتال پچیسی مرتبۂ فوربس۔
  • کتب جو لاطینی رسم خط میں شائع ہوئیں۔
  • لاطینی و فارسی رسم خط پر بحث اور لاطینی رسم خط کے بعض حامی۔
  • اہل ہند کی سیاحت یورپ بغرض تعلیم وغیرہ۔
  • انگلستان میں اردو زبان کا چرچا۔
  • انگریز فوجیوں کی تعلیم میں اردو کا لزوم۔
  • بعض مستشرقین کا انتقال۔
  • مصنف کا باغ و بہار کو فارسی اور لاطینی رسم خط میں پڑھانا؛ کامروپ کا مختصر تذکرہ۔
  • کامروپ کے مضامین کا خلاصہ اور اس کی مختصر روئیداد۔

گیارہواں خطبہ، 2 دسمبر 1861ء[edit]

  • تمہید؛ ادبی و علمی مشاغل کی ترقی، مطبوعات کی کثرت، حکومت کی اردو سے دلچسپی اور اس کی وجہ۔
  • صوبہ شمال مغربی میں اردو ہندی اخبارات کی تعداد و اہمیت میں اضافہ۔
  • بعض قدیم و جدید رسائل و اخبارات۔
  • صوبۂ شمال مغربی کے مطابع کی تعداد اور ان کی مطبوعات کی فن وار تقسیم۔
  • چند اور اہم مطبوعات کا ذکر۔
  • صوبہ شمال مغربی کے سوا دوسرے صوبوں میں اردو کی ترقی۔
  • مسیحی مبلغوں کی کارگزاری اور اس کا اثر اردو پر۔
  • مذہبی و تبلیغی مطبوعات۔
  • ہندوستانی جدید الایمان عیسائی اور ان کی کتابیں۔
  • کتابیں جو دوبارہ طبع ہوئیں۔
  • مسٹر روجرس کی درسی کتاب۔
  • ہندوستانی صرف و نحو پر یورپی زبانوں میں کتابیں۔
  • ہندوستانی انگریزی لغت۔
  • رومن رسم خط کی ترویج۔
  • دہلی کالج کی تباہی۔
  • کلکتہ اور بمبئی یونیورسٹیاں، آخر الذکر کی اردو درسی کتب۔
  • بعض یورپی مدارس جہاں اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔
  • ایسٹ انڈیا ہاؤس کا کتب خانہ اور عجائب گھر۔
  • عمارت دفتر وزیر ہند۔
  • پیرس میں ہندوستانی کے درس، بعض اہل ہند جو مصنف سے ملے۔

بارہواں خطبہ، یکم دسمبر 1862ء[edit]

  • تمہید؛ ہندوستانی زبان کی ترقی میں علمائے ہند و یورپ کا کام۔
  • اخبارات جن کا ذکر گزشتہ خطبات میں نہیں۔
  • اردو زبان کی جدید کتابیں۔
  • فارسی و ہندی ترجمے۔
  • مطبوعات مطبع تھامسن کالج رڑکی۔
  • کتابیں جو مصنف کو ہندوستان سے موصول ہوئیں۔
  • انگریزی کتب کے ترجمے۔
  • تذکرۂ سراپا سخن۔
  • تصانیف جن کا علم سراپا سخن سے ہوا۔
  • تذکرے جو مصنف کے علم میں ہیں۔
  • شعرائے مرہٹی کا تذکرہ کوی چرتر۔
  • کلکتہ ریلیجیس ٹراکٹ سوسائٹی کی مطبوعات۔
  • پادری اون صاحب کی تفسیر انجیل۔
  • اردو لغت باغ و بہار مرتبہ ڈنکن فوربس۔
  • باغ و بہار کے مختلف ایڈیشن اور اس پر تنقیدی خیالات۔
  • اسلامی کتب عقائد و تفاسیر کی اہمیت۔
  • طلبائے اردو و فارسی کی تعداد۔
  • ہندوستانی مدارس میں تعلیم انجیل کی سہولت۔
  • حکومت صوبہ شمال مغربی کا یورپی زبانوں کے سوا دیسی زبانوں کی ترقی و ترویج میں کوشاں ہونا۔
  • اہل ہند کی توجہ تعلیم نسواں کے باب میں۔
  • اہل ہند کی اردو کو عدالتی زبان بنانے کی کوشش۔
  • پبلک جلسوں میں اردو تقریریں۔
  • یورپ کے بعض مدارس میں اردو کی تعلیم کا انتظام۔
  • اہل فرانس کو غیر زبانوں کی تحصیل کی ترغیب۔
  • اڈنبرا میں تقابلی لسانیات کی چیر
  • تقسیم لسانیات بلحاظ صرف و نحو
  • اردو کی وسعت و عالمگیریت۔

تیرہواں خطبہ، 7 دسمبر 1863ء[edit]

  • تمہید؛ ہندوستانی ادب کی روز افزوں ترقی، سول سروس کے امتحان میں اردو ہندی کا لزوم۔
  • اس تجویز کی تفصیل۔
  • ہندوستانی زبان میں مضمون نگاری کا انعام۔
  • ہندوستانی کی اہمیت پر بعض مستشرقین کی آرا۔
  • ہندوستانی کے مروجہ زبان ہونے کی دلیلیں۔
  • ہندوستانی ہندوستان سے باہر بھی بولی جاتی ہے۔
  • سول سروس کے لیے نصابی کتابیں۔
  • ہندوستانی مطابع کی ترقی، ان کی مطبوعات اور رسائل و اخبارات میں اضافہ۔
  • پنجاب کے دو اخبار۔
  • ہندوستانی کے جدید اخبار۔
  • دوسرے ادبی مشاغل، سر سید کی شرح انجیل۔
  • انجیل کے مختلف ترجمے اور اڈیشن۔
  • نئی مطبوعات، مطبوعات منشی کریم الدین و دیگر چند کتب۔
  • تقویم۔
  • قانون کتب کے ترجمے اور چند کتب کے ترجمے وغیرہ۔
  • عبدالواسع ہانسوی اور دیوی پرشاد کی تصانیف۔
  • دو ہندی کتابیں۔
  • جدید مطبوعات حکومت پنجاب۔
  • اہل ہند کی تعلیمی ترقی ان کا یورپ بغرض تعلیم جانا۔
  • ہندوستانی یونیورسٹیاں اور کالج اور ان میں طلبہ کی تعداد وغیرہ۔
  • پنجاب کی تعلیمی کیفیت۔
  • صوبہ بمبئی کی تعلیمی حالت۔
  • فوٹوگرافی کا شوق۔
  • تبلیغ مسیحیت کی کامیابی، مذہبی گیت۔
  • انگریزی مشن کی کامیابی۔
  • بمقابلہ ہندوؤں کے مسلمانوں پر تبلیغ عیسائیت کا اثر کم پڑتا ہے۔ اس میں بعض مشہور عیسائیوں کے ترک دین کو بھی دخل ہے۔
  • انسداد ستی اور ترویج عقد بیوگان کی مساعی۔
  • مشاہیر جو دنیا سے چل بسے؛ بہادر شاہ ظفر، مہارانی چند کنور، میر جعفر علی خاں والی سورت، جان دیتلی۔
  • ہندوستانی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کی ہمدردی اہل ہند کے ساتھ۔

چودہواں خطبہ، 5 دسمبر 1864ء[edit]

  • تمہید؛ ہندوستانی زبان کا فروغ۔
  • سر چارلس ٹریولین کی لائق شکر مساعی، عربی فارسی کے مغلق الفاظ کے اخراج کی کوشش، انگریزی الفاظ کے استعمال کا رجحان۔
  • اس رجحان کے خلاف صدائے احتجاج۔
  • فوجی اغراض اور خط و کتابت کے لیے ہندوستانی کا لزوم، ہندوستانی کی ترویج و مقبولیت اس کا ثبوت وغیرہ۔
  • اعلی انگریزی حکام کے لیے ہندوستانی کا لزوم، حکومت کے مختلف شعبوں کی ملازمتوں کے لیے نصابی کتابیں وغیرہ۔
  • اخبارات کی ترقی، مسٹر پامر کی اردو دانی کی تعریف۔
  • جدید ہندوستانی اخبار۔
  • ادارات کا معیار بلند ہو رہا ہے، رائے عامہ کی نشوونما۔
  • ہندوستانی کی ترقی کا حال، بعض جدید کتابیں، ان کی نوعیت، ان کتابوں کے نام اور مختصر حالات۔
  • لاہور کی جدید مطبوعات۔
  • لدھیانے کی مطبوعات۔
  • مطبوعات دہلی۔
  • چند متفرق کتابیں۔
  • اہل یورپ کی ہندوستانی ادبیات پر کتابیں۔
  • مجلس مذاکرۂ علمیہ اہل اسلام قائم کردہ سر سیّد۔
  • ہندوؤں کی انجمن ستھیا وید سماجم۔
  • ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کے نئے صدر سر جان لارنس اور ان کا تعلیمی شغف۔
  • چند اور مدرسے اور کالج وغیرہ۔
  • تعلیم نسواں کی ترقی۔
  • انگریزی مشن کا اثر مسلمانوں پر، مسلم مشنری سوسائٹی وغیرہ۔
  • مختلف انجمن ہائے تبلیغ کی کارگزاریاں، اہل علم جن کے انتقال سے ہندوستانی ادب کو نقصان پہنچا؛ جیمس آربلانٹین انجیرس، موسیو بوترو، ایورنڈ ڈبلو کیورٹن، موسیو آندرے ژان، میجر ایچ۔ آر۔ جیمس۔