تیر مژگاں کو تو پیکان قضا کہتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیر مژگاں کو تو پیکان قضا کہتے ہیں  (1930) 
by نشتر چھپروی

تیر مژگاں کو تو پیکان قضا کہتے ہیں
پر نگاہ غلط انداز کو کیا کہتے ہیں

سامنے میرے تو دشمن کو برا کہتے ہیں
دشمنوں میں مجھے کیا جانے وہ کیا کہتے ہیں

جب کہا میں نے مجھے آپ برا کہتے ہیں
کس ڈھٹائی سے ستم گر نے کہا کہتے ہیں

چاہنے والوں کو اپنے جو برا کہتے ہیں
سوچتے بھی ہیں کبھی آپ کہ کیا کہتے ہیں

بے وفائی کا تری خلق گلہ کرتی ہے
اور ہم ہیں کہ تجھے جان وفا کہتے ہیں

لب ہلانا بھی تو اب مجھ کو ہوا ہے مشکل
میری ہر بات کو دشمن کا گلہ کہتے ہیں

مسکرا کر مجھے دیکھا کہ مری جان گئی
ناز کہتے ہیں اسے اس کو ادا کہتے ہیں

غیر جو چاہیں کہیں مجھ کو مگر یاد رہے
خوبرو ہیں وہ جو اوروں کو برا کہتے ہیں

زندگی ہے وہ حقیقت میں جو کہلاتی ہے موت
ہے وہی عین بقا جس کو فنا کہتے ہیں

غیر کہتا ہے برا مجھ کو تو کہنے دیجے
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

ہم جو کہتے ہیں وہ بے جا ہے سراسر ہے غلط
اور اغیار جو کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

کیا ستم ہے نہیں سنتے وہ فسانہ میرا
کہتے ہیں لوگ اسے ہوش ربا کہتے ہیں

گھر رقیبوں کے ضرور آپ گئے تھے چھپ کر
مجھ سے یہ آپ کے نقش کف پا کہتے ہیں

آہ کو میری سمجھتے ہیں نسیم گلشن
اور نالوں کو وہ اندوہ ربا کہتے ہیں

مجھ سے کیا پوچھتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں
کیوں مجھے کشتۂ انداز و ادا کہتے ہیں

آپ تو جور کے موجد ہیں جفا کے بانی
آپ کیا جانیں کہ کس شے کو وفا کہتے ہیں

ہے جنوں ان کو یہ آشفتہ سری ہے ان کی
گیسوئے یار کو جو شام بلا کہتے ہیں

ہے سمجھ کا یہ تری پھیر بتوں کو زاہد
کب خدا کہتے ہیں ہم شان خدا کہتے ہیں

سنتے ہی نیند نہ آ جائے تو میرا ذمہ
میرے افسانے کو اندوہ ربا کہتے ہیں

سر اڑا دیتے ہیں وہ تیغ جفا سے نشترؔ
پیار سے ہم جو انہیں جان وفا کہتے ہیں

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse