تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے
by لالہ مادھو رام جوہر

تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے
پھرتے ہیں محتاج وہ اک دانے دانے کے لیے

شمع جلواتے ہیں غیروں سے وہ میری قبر پر
یہ نئی صورت نکالی ہے جلانے کے لیے

دیر جاتا ہوں کبھی کعبہ کبھی سوئے کنشت
ہر طرف پھرتا ہوں تیرے آستانے کے لیے

ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا
منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے

اے فلک اچھا کیا انصاف تو نے واہ واہ
رنج میرے واسطے راحت زمانے کے لیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse