Jump to content

تھوڑا ہے جس قدر میں پڑھوں خط حبیب کا

From Wikisource
تھوڑا ہے جس قدر میں پڑھوں خط حبیب کا
by لالہ مادھو رام جوہر
316992تھوڑا ہے جس قدر میں پڑھوں خط حبیب کالالہ مادھو رام جوہر

تھوڑا ہے جس قدر میں پڑھوں خط حبیب کا
دیکھا ہے آج آنکھوں سے لکھا نصیب کا

ہم مے کشوں نے نشہ میں ایسے کیے سوال
دم بند کر دیا سر منبر خطیب کا

صیاد گھات میں ہے کہیں باغباں کہیں
سارا چمن ہے دشمن جاں عندلیب کا

اپنی زبان سے مجھے جو چاہے کہہ لیں آپ
بڑھ بڑھ کے بولنا نہیں اچھا رقیب کا

آنکھیں سفید ہو گئیں جب انتظار میں
اس وقت نامہ بر نے دیا خط حبیب کا

قسمت ڈبونے لائی ہے دریائے عشق میں
اے خضر پار کیجئے بیڑا غریب کا

وہ بے خطا ہیں ان سے شکایت ہی کس لیے
جوہرؔ یہ سب قصور ہے اپنے نصیب کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.