تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ
by ولی اللہ محب

تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ
اے ہمدم من اس کے کہیں اور لگی لڑ

اس نے شجر دوستی اب دل سے اکھاڑا
کہنے سے رقیبوں کے ہے فتنے کی بندھی جڑ

اس بت کو کہاں پہنچیں بت آذر کے تراشے
ہاتھ اپنے سے تیار کرے جس کو خدا گھڑ

دل دوز نگہ یار کی ہوتی ہے مقابل
برچھی کی انی سی مرے سینے میں گئی گڑ

خجلت سے تو پھر سامنے آنکھیں نہ کرے گا
اے ابر مرے گریہ کی جس وقت لگی جھڑ

خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے
سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ

رندوں نے عوض وسمے کے نورا جو لگایا
پاکی کی طرح شیخ کی داڑھی بھی گئی جھڑ

ترچھی نگہ اس کی کہ ہوا کوئی نہ آڑے
سینے کو سپر کر کے رہے ایک ہمیں اڑ

صحرائے جنوں سے محبؔ اس زلف کی زنجیر
پھر پیچ میں لے آئی مجھے پاؤں مرے پڑ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse