تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ
Appearance
تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ
اے ہمدم من اس کے کہیں اور لگی لڑ
اس نے شجر دوستی اب دل سے اکھاڑا
کہنے سے رقیبوں کے ہے فتنے کی بندھی جڑ
اس بت کو کہاں پہنچیں بت آذر کے تراشے
ہاتھ اپنے سے تیار کرے جس کو خدا گھڑ
دل دوز نگہ یار کی ہوتی ہے مقابل
برچھی کی انی سی مرے سینے میں گئی گڑ
خجلت سے تو پھر سامنے آنکھیں نہ کرے گا
اے ابر مرے گریہ کی جس وقت لگی جھڑ
خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے
سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ
رندوں نے عوض وسمے کے نورا جو لگایا
پاکی کی طرح شیخ کی داڑھی بھی گئی جھڑ
ترچھی نگہ اس کی کہ ہوا کوئی نہ آڑے
سینے کو سپر کر کے رہے ایک ہمیں اڑ
صحرائے جنوں سے محبؔ اس زلف کی زنجیر
پھر پیچ میں لے آئی مجھے پاؤں مرے پڑ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |