تاب دیدار لا نہیں سکتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تاب دیدار لا نہیں سکتے
by منیر بھوپالی

تاب دیدار لا نہیں سکتے
ان سے نظریں ملا نہیں سکتے

راز دل اب چھپا نہیں سکتے
اور زباں پر بھی لا نہیں سکتے

دل میں رہتی ہے اک خلش پیہم
جس کو ہم خود بتا نہیں سکتے

جرأت دل کہاں کہاں جلوے
ہوش میں ہم اب آ نہیں سکتے

دل میں ایسے بھی چند شکوے ہیں
جو زباں پر بھی لا نہیں سکتے

عرش رس تھے کبھی یہی نالے
آج لب تک بھی آ نہیں سکتے

چل رہی ہے ہوا وہ گلشن میں
آشیاں تک بنا نہیں سکتے

مصلحت کچھ تو ہے منیرؔ اس میں
ورنہ کیا خود وہ آ نہیں سکتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse