تاب دیدار لا نہیں سکتے
Appearance
تاب دیدار لا نہیں سکتے
ان سے نظریں ملا نہیں سکتے
راز دل اب چھپا نہیں سکتے
اور زباں پر بھی لا نہیں سکتے
دل میں رہتی ہے اک خلش پیہم
جس کو ہم خود بتا نہیں سکتے
جرأت دل کہاں کہاں جلوے
ہوش میں ہم اب آ نہیں سکتے
دل میں ایسے بھی چند شکوے ہیں
جو زباں پر بھی لا نہیں سکتے
عرش رس تھے کبھی یہی نالے
آج لب تک بھی آ نہیں سکتے
چل رہی ہے ہوا وہ گلشن میں
آشیاں تک بنا نہیں سکتے
مصلحت کچھ تو ہے منیرؔ اس میں
ورنہ کیا خود وہ آ نہیں سکتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |